وزیراعظم عمران خان مجھے اس کام کیلئے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف بھیج دیتے تھے، تمام معاملات اسٹیبلشمنٹ چلارہی ہے، سردار اختر جان مینگل کی تہلکہ خیز باتیں

21  جنوری‬‮  2021

کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بلوچستان ہمیشہ سیاسی مقاصد کے حصول اور وسائل کے لوٹ مار کے طور پر استعمال کیاگیاہے،بلوچستان نیشنل پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے باپ پارٹی بنائی گئی بلوچستان عوامی پارٹی کا نام پہلے پاکستان عوامی پارٹی تجویز کیا گیا لیکن پھر

اس کو بنانے والوں کو احساس ہوا کہ یہ تو پاپ کہلائی گی اس لئے پھر اسکو باپ بنا دیابلوچستان میں اس پارٹی کو ووٹ فرشتوں نے دیا اور الیکشن میں دھاندلی سے جتوایاصوبوں کی سطح پر پارٹیاں قوم پرستانہ ہوتی ہے لیکن بی اے پی میں تو قوم پرستی کی آدا بھی نہیں ہے،بلوچستان کے تمام معاملات اسٹیبلشمنٹ چلارہی ہے حتی کہ یہاں کی حکومت سازی کااختیار بھی وفاق کے پاس نہیں،لاپتہ افراد کے معاملے پر جب بھی میری ملاقات عمران خان اور ان کے منسٹرز سے ہوتی تھی تو وہ مجھے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے طرف بھیج دیتے تھے ہم عمران خان کی حکومت میں اسلئے شامل ہوئے کیونکہ ہم لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتے تھے۔ میں نے 5128 لاپتہ لوگوں کی لسٹ پارلیمنٹ میں جمع کروائی۔ ان میں سے 450 کے قریب بازیاب ہوئے لیکن 1500 اور اٹھائے گئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اسلئے ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی۔ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز ساؤتھ ایشاء پریس کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بلوچستان کے مسئلے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ایک زمانہ میں صرف پی ٹی وی یا محدود اخبارات کے ذریعے خبریں ملتی تھی لیکن جدید دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے بلوچستان کے حالات سے سب باخبر ہے،بلوچستان کی بدحالی میں نہ صرف

معاشی صورتحال بلکہ سیاسی حالات بھی شامل ہیں اوریہ سلسلہ آج کا نہیں بلکہ 1947سے چلا آرہاہے ہر آنے والے حکمران نے بلوچستان کو اہمیت دینے کی بجائے اپنے مقاصد حاصل کی مقاصد کا مطلب بلوچستان کے وسائل لوٹے اور استعمال کئے لیکن مقامی باشندہ کو مسلمان اپنی جگہ لیکن انسان بھی نہیں سمجھا گیا یہ ایک عرصے سے

لاوا پک رہاہے اورلاوا اس حد تک پہنچ چکاہے کہ سکولوں میں پاکستان کا ترانا بھی لوگ بجانا پسند نہیں کرتے تھے موجودہ حکومت ہو یا اس سے پہلے کی حکومت بارہابلوچستان کے مسئلوں پر توجہ دلانے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں چاہے جمہوری حکومت ہو یا آمروں کی حکومت ان کی جانب سے بلوچستان کو نظرانداز کیاگیاہے سیاست

کا رواج ہے کہ ہر کوئی اپنے مقصد کیلئے سیٹوں کواستعمال کرتاہے ہم نے حکومت سے بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے معاہدہ کیا جن میں پہلا مطالبہ لاپتہ افراد، افغان مہاجرین کی وطن واپسی،معدنیات کو بلوچستان کے حوالے کرنا، گوادر میں مقامی لوگوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی سمیت دیگر مسائل

حکومت کے سامنے رکھے، ہم نے اس وقت واضح کیاتھا کہ چھ نکات سے بلوچستان کے مسائل کا حل ایک راستہ ہے اور مختلف اوقات میں ہم وزیراعظم سے لیکر کمیٹی ممبران تک کو معاہدے کی یقین دہانی کراتے رہے،انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی میں پہلی لسٹ جو مہیا کی گئی تھی میں 5ہزار 128کے قریب لاپتہ افراد لوگوں کی تفصیل

تھی جن میں سے ڈھائی سال کے عرصے میں ساڑھے چار سو لوگ بازیاب ہوگئے تھے لیکن ان ڈھائی سالوں میں 15کے قریب اور بھی لوگ لاپتہ ہوگئے بازیابی کا سلسلہ بند لیکن اٹھانے کا سلسلہ جاری تھا،حکمرانوں کی طرف سے مثبت رسپانس نہیں ملا ٹرخانے کیلئے کبھی دو تو کبھی چار لوگ چھوڑ دئیے جاتے تھے جہاں ہمارے ووٹوں

کی ضرورت تھی تو پھر لوگوں کو چھوڑ دیاجاتا تھا،الیکشن کمپین میں کسی نے ہم سے سڑکوں اور ترقی کامطالبہ نہیں کیا ہر علاقہ انڈر ڈویلپ ہے لیکن لوگ اپنے بچوں کی واپسی کامطالبہ کرتے تھے اس لئے ہم نے یہ مطالبہ سر فہرست رکھا،حکومت کی جانب سے ٹرخانے پر ہم نے حکومت کو خیرا ٓباد کہہ دیا،سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ

لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین مسئلہ ہے عمران خان کو چھوٹے معاملات میں اختیارات حاصل نہیں ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف ڈائیورٹ کرتے اور کہتے کہ آئیں ہم آپ کی آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کراتے ہیں اور یہ مسئلہ حل کرتے ہیں،ان کے باڈی لینگویج اور ان کے عمل سے ثابت

ہوگیاتھاکہ وہ اختیارات کے مالک تھے اور نہ ان سے پہلے بلوچستان کے معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی کو اختیار دیاگیاہے،چاہے وہ لاپتہ افراد ہو سی پیک ہو یا کوئی اور مسئلہ،بلوچستان میں حکومت سازی کااختیار بھی وفاق کوحاصل نہیں بلکہ اسیٹبلشمنٹ لیتی ہے،انہوں نے کہاکہ سیاسی پارٹیاں دنوں میں نہیں بنتی بلکہ طویل

جدوجہد کے بعد جا کر بنتی ہے اور پھر الیکشن کے دوران منشور عوام میں لے جایاجاتاہے،باپ پارٹی الیکشن سے دوتین ماہ قبل بنی اور بناتے وقت فیصلہ بھی نہیں ہوپارہا تھاکہ اس کانام کیارکھاجائے بلوچستان عوامی پارٹی جو نام رکھاجاتاہے وہ قوم ہمیشہ قوم پرست پارٹیاں ہوتی ہے اس کی کوئی آدا بھی قوم پرستانہ نہیں لگتی یہ جلد بازی میں

نام رکھاگیا ہے اصل میں اس کانام پاکستان عوامی پارٹی رکھاجارہاتھا نام تجویز کیا گیا تھا لیکن پھر انہیں یاد آیا کہ یہ تو پاپ بن جائے گااورپھر پاپ سے ڈائیورٹ کرکے باپ بنایادیااب پتہ نہیں کس کے باپ کا یہ پاپ ہے یہ بنانے والے لوگ جانتے ہیں،میں جب 25سال کاتھا اور آج میں 65کا ہوں تو اب تک ہم اپنی پارٹی کو مکمل نہیں بنا پارہے تو یہ

کوئی جادو کی چھڑی تھی شاید یہ پہلی پارٹی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی پارٹیاں بنتی رہی ہیں، بلوچستان نیشنل پارٹی کی اکثریت کو ختم کرنے کیلئے باپ پارٹی بنائی گئی ہے انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی میں مخصوص نشست کے ساتھ ہماری 4نشستیں ہیں قومی اسمبلی کی ایک نشست جس پارٹی کو جتوائی گئی اس ممبر سے الیکشن

کمشنرنے سوال کیاکہ آپ نے ووٹ کاسٹ کیا تو انہوں نے کہانہیں پوچھا کہ کیوں نہیں تو انہوں نے کہاکہ حالات خراب تھے اب جب حالات خراب تھے اور اسی امیدوار کو اسی پولنگ سے 12سو ووٹ ملتے ہیں شاید فرشتوں نے ہی ان کیلئے ووٹ ڈالے ہوں گے جہاں امیدوار خود نہیں جاسکتا تھا یہ پارٹی قومی اسمبلی،سینیٹ اور صوبائی سطح پر مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…