نیویارک( آن لائن )موسمیات سے متعلق عالمی تنظیم ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں کیے جانے والے لاک ڈان کے باوجود زمین کے کرہ ہوائی میں گرین ہاس گیسوں کے اخراج میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور یہ اخراج اپنی ریکارڈ سطح تک پہنچ گیا ہے. یہ انکشاف تنظیم نے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اوردیگر گرین ہاس گیسوں کے
حجم سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کیا ہے کورونا وائرس کی عالمی وبا سے منسلک لاک ڈان کی وجہ سے بھارت، چین اور دیگر کئی ممالک کے بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی میں کچھ کمی ہوئی ہے.تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے باوجود گرین ہاس گیسوں کے مسلسل اخراج میں کمی نہیں ہوئی جس سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ جاری ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے برف کے تیزی سے پگھلنے، سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہونے اور شدید موسمی تغیرات جیسے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق تنظیم کے سیکرٹری جنرل پیٹری ٹالس کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کا حل نہیں ہے انہوں نے بتایا کہ لاک ڈان کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن اس کا کرہ ارض کے درجہ حرارت اور آب و ہوا کی تبدیلی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا.انہوں نے کہا کہ اس سال عالمی وبا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈان سے گیسوں کے اخراج میں چار سے 7 فیصد تک کمی ہوئی ہے لیکن اس سے کرہ فضائی میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صورتِ حال پر کوئی قابل ذکر اثر نہیں ہوا کیوں کہ یہ گیس طویل عرصے تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے. عالمی ادارہ صحت کے کرہ فضائی اور ماحولیات کی تحقیق کے شعبے کے سربراہ اوکسانا تاراسووا کہتے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ صدیوں تک فضا میں موجود رہتی ہے اور سمندروں میں اس سے بھی زیادہ عرصے تک
اپنا وجود برقرار رکھتی ہے تاراسووا کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسی تبدیلیاں ہوتے ہوئے دیکھی ہیں لیکن یہ تبدیلیاں اس وقت رونما ہوتی ہیں جب آب و ہوا برفانی عہد سے اس معتدل درجہ حرارت کے دور میں داخل ہوتی ہے جو دو برفانی زمانوں کا درمیانی عرصہ کہلاتا ہے یہ تبدیلی عموما 100 سے 200 برسوں کے دوران ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ تبدیلی گیسوں کے اخراج سے
محض چار برسوں کے اندر لے آئے ہیں.آب و ہوا سے متعلق 2016 میں طے پانے والے پیرس معاہدے کا ہدف عالمی سطح پر 2050 تک درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت سے ایک اعشاریہ پانچ پوائنٹ اوپر تک لانا ہے. تالس کہتے ہیں کہ شاید یہ ہدف حاصل نہ کیا جا سکے تاہم چین، یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا نے 2060 تک کاربن گیسوں کے اخراج کو قدرتی سطح تک لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے یہ ممالک دنیا میں کاربن گیسوں کے 50 فی صد اخراج کے ذمے دار ہیں.