اسلام آباد(آن لائن )وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمرنے نے کہا کہ اگر ہم نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے احتیاط نہیں کی تو اگلے دو ہفتوں میں حالات خدا نخواستہ پھر اسی نہج پر چل جائیں گے جب جون میں وبا کی پہلی لہر کا عروج تھا، انڈورریسٹورانٹس میں کھانے پینے پر پابندی عائد کردی ہے، لیکن کھلی جگہوں پر کھانے پینے کے اسٹال اور ڈھابوں پر کوئی پابندی نہیں ہوگی،
سکولوں میں چھٹیاں کردی گئیں، مساجد میں حفاظتی اقدامات کیلئے صوبے جید علمائ� کرام کا اجلاس بلائیں گے، سیاست پر پابندی نہیں، لیکن سیاسی اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے، کیونکہ کورونا پھیلا تو لوگوں کا روزگار سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے این سی او سی کے اجلاس کے بعد معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کے ہمراہ میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے کیا ۔ اسد عمر نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہر انتہائی خطرناک ہے، عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی ہے،قومی رابطہ کمیٹی پہلے نمبر پر سکول بند کرنے کی وزیرتعلیم شفقت محمود کی سفارشات قبول کرلی گئی ہیں، سکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا،اس کی پوری تفصیلات این سی اوسی صوبائی حکومتوں کو بھجوا دے گی۔ انہوں نے کہا تعلیمی ادارے دو طریقوں سے چلیں گے، بچوں کے ہوم ورک کا کوئی طریقہ کار بنایا جائے گا تاکہ گھر میں ان کی پڑھائی چلتی رہے اور اس کی تفصیلات کا تعین صوبے کریں گے، ہر صوبہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن اسکولوں کے پاس آن لائن سہولت ہے وہ آزاد ہوں گے کہ وہ اپنی کلاسیں آن لائن جاری رکھ سکیں، 25 دسمبر سے 10 جنوری تک موسم سرما کی تعطیلات ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر حالات ٹھیک رہے اور خطرناک ہوتی لہر پر ہم قابو پانے میں کامیاب ہوئے تو 11 جنوری تک اسکولوں کے کھلنے کا امکان ہے۔این سی او سی کے اجلاس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کیا گیا کہ بند کمروں کے اندر کھانے پینے کے
ریسٹورنٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اسکولوں کی طرح مشکل فیصلہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ بند کمرے میں زیادہ لوگ موجود ہوں اور ماسک نہیں پہنے ہوں تو وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھتا ہے۔اسد عمر نے کہا کہ این سی او سی کی جانب سے صوبوں کو تفصیلات بھیجوا دی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ علمائے کرام نے رمضان کے دوران حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا اور اب بھی
صوبوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ علمائے کرام سے رابطہ کرکے اسی طرح کا تعاون حاصل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بڑے بڑے اجتماعات ہو رہے ہیں، ملک میں سیاست پر پابندی نہیں لیکن ذمہ داری کی بات ہے، دنیا کیامیر ترین اور ہمسایہ ملک بھارت میں بری طرح سے شہریوں کا روزگار چھن گیا ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ ہم یہ نہیں چاہتے ہیں ایسے حالات پیدا ہوں جہاں لوگوں کی صحت اور
روزگار خطرے پیدا ہوں، اگر ایسا کیا تو ہماری سیاست غرق ہوجائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے کورونا کی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے اور امید ہے تمام سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی جہاں بات کی جائے گی جبکہ ہمیں سیاست میں مقابلہ کرنے کے لیے کوئی پریشانی نہیں ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے اکتوبر میں کہا تھا جب کیسز کی شرح دو فیصد تھی اور خبردار کیا تھا کہ آگے
حالات اس طرف جا رہی ہے، جس کے لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہم وہاں پہنچے ہیں جہاں ملک بھر 1750 سے زیادہ افراد کو آکسیجن درکار ہے اور یہ مختلف ہسپتالوں میں داخل ہیں، جون میں جب برے حالات تھے تو اس وقت 3300 سے 3500 افراد مختلف ہسپتالوں میں تھے۔اسد عمر نے کہا کہ جس رفتار سے پچھلے تین ہفتوں سے کیسز کی شرح بڑھ رہی ہے اگر ہم نے اپنے
رویے نہیں بدلے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا تو آج سے 2ہفتے بعد پھر اسی جگہ ہوں گے جہاں جون میں وبا کا عروج تھا، خدانخواستہ ہم وہاں جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں سے بھر پور اپیل ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، مصافحہ کرنے گریز کریں لیکن لوگوں کو عزت سے سلام کریں، باہر جہاں لوگوں یا بند جگہ میں زیادہ لوگ ہوں وہاں ماسک پہنیں اور وقت ملے تو ہاتھ دھوتے رہیں اور دوسروں سے فاصلہ رکھیں۔