بدین(این این آئی)لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے گورنمٹ کالج کے لیکچرار اور پروفیسرز اپنے کالج سے غائب، نجی کالج میں پڑھانے کے باعث سرکاری کالج میں زیر تعلیم بچوں کا مستقبل تباہ گزشتہ دس سال سے ایک بھی بچہ میڈیکل میں داخل نہ ہو سکا۔تفصیلات کے مطابق اسلامیہ ڈگری کالج بدین میں سرکاری خرانہ سے ماہانہ لاکھوں روپے تنخوائیں وصول کرنے والے
17تا18گریڈ کے پروفیسرز اور لیکچرار گشتہ سات سال سے گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں ڈیوٹی کی بجائے بدین شہر میں پوسٹ روڈ پر واقع ایک نجی اسکول اور کالج بدین میں ڈیوٹی اور تدریسی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں اسلامیہ کالج میں تعینات انگلش، فزکس،ریاضی، کیمسٹری اور دیگر مضامین کے لیکچرار اپنی سرکاری ڈیوٹی پر جانے کے بجائے صبح سویرے نجی اسکول کے سینئر سیکشن کی عمارت میں گزشتہ کئی سال سے نویں سے بارہویں جماعت کے طلبہ و طالبات کو فزکس، بیالوجی، کیمسٹری، انگلش اور ریاضیکے مضامین پڑھارہے ہیں جبکہ سرکاری کالج میں زیرتعلیم محنت کش مزدوروں ہاریوں چھوٹے ملازمین اور غریب شہریوں کے بچے سرکاری کالج میں لیکچرار کے آنے کا انتظار کرتے کرتے واپس اپنے گھروں کو روانا ہوجاتے ہیں ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق نجی اسکول اور کالج کی انتظامیہ اور حیدرآباد بورڈ کی انتظامیہ کی ملی بگھت اور لاکھوں روپے کی رشوت سے ہر سال سالانہ امتحانات میں کلاس دسویں اور بارہویں کے امتحانی نتائج کے دوراں اے ون اور اے گریڈ حاصل کرنے کے لیے بہتریں نتائج دینے کا کاروبار بھی گزشتہ کئی سال سے عروج پر ہے حیدرآباد تعلیمی بورڈ اور مزکورہ نجی کالیج اور اسکول انتظامیہ کے خلاف چیف سیکٹریری سندھ کی ہداہت پر محکمہ اینٹی کرپشن میں بڑے پیمانے پر تحقیقات بھی جاری ہے تعلیم دشمن بااثر مافیا
کی کروڑوں روپے کی رشوت اور اثرواصوخ کے باعث انکوئریز التوا اور سست روئی کا شکار ہے جبکہ کرونا وائرس کے بعد بند تعلیمی اداروں کے بچوں کو امتحان کے بغیر پروموٹ کرنے کی حکومتی پالیسی کا مزکورہ مافیا بھرپور فائدا آٹھانے کے لئے زیرتعلیم بچوں سے اے ون گریٹ اور آضافی نمبروں کے لئے تین سے چھ لاکھ روپے وصول کر چکے ہیں اب بچوں کو انٹر کے نتائج کا
انتظار ہے یاد رہے اسلامیہ کالج بدین میں مقرر سرکاری خزانے سے بھاری تنخوائیں وصول کرنے والے لیکچرارز اور پروفیسرز، ایسوئیٹ پروفیسرزکی جانب سے نجی کالج میں تدریس سرانجام دینے کے بعد پرئیویٹ ٹیوشن سینٹرز، اکیڈمی اور نجی اسکولز کھولنے کے باعث
گذشتہ 20 سالوں سے سرکاری کالیج کے بچے حیدرآباد بورڈ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے گورنمت کالج سے کوئی شاگرد صوبے کے کسی بھی میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلے لینے کامیاب نہیں ہو سکا۔