ادارے اپنی غلطی تسلیم کریں تو ہم آنکھوں پر بٹھائیں گے،ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی حکومت نہیں چاہیے،کوئی مائی کا لعل سوچے بھی نہیں کہ ایسا کرے گا، مولانا فضل الرحمان کا دبنگ اعلان

25  اکتوبر‬‮  2020

کوئٹہ (این این آئی) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے پر بعد موجودہ حکمرانوں کا حکومت کر نے کا اخلاقی جواز نہیں رہا کوئی مائی کا لعل سوچے بھی نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کرینگے،بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے،جو حشر پشاور میں بی آر ٹی کا ہوا ہے وہ حشر

پورے ملک اور سی پیک کا ہوا ہے، ہم نے چین کے ساتھ بڑے منصوبوں لگانا شروع کئے،ان ن لوگوں نے کٹے، مرغی اور انڈے کے منصوبے پیش کر دیئے،کیا عمران خان نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا نہیں دیا تھا، ہم اداروں کے دشمن نہیں، اگر وہ پاکستان پر جعلی حکومت کی پشت پناہی کرتے ہیں تو پھر ان سے گلہ،شکایت اور احتجاج کرنا ہمارا حق ہے،ہماری اسٹیبلشمنٹ جعلی حکومت کی پشت پناہی سے دستبردار ہوجائے،ادارے اپنی غلطی تسلیم کریں تو ہم آنکھوں پر بٹھائیں گے،ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی حکومت نہیں چاہیے، جعلی حکمرانوں کیخلاف تحریک زور سے آگے بڑھے گی۔ اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ گفتگو سے پہلے ایک قرار داد پیش کرنا چاہتاہوں کہ فرانس میں فرانس کے صدر حکم پر گستاخانہ خاکے عام دیواروں پر چسپاں کیے گئے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فرانس اور ڈنمارک نے بڑا ظلم کیا ہے، ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے تاہم آپ کے توہین آمیز اقدامات شدت کی طرف دھکیل رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے ناپاک اقدامات فوری طور پر روک دیے جائیں، یورپ کی ایک عدالت نے اس کو اظہار آزادی کہنے سے مترادف قرار دیا اور اس کو جرم قرار دیا ہے تو پھر حکمرانوں کی سطح پر اس طرح کام ہوں گے تو پھر

ردعمل آئے گا۔سربراہ جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں کراچی میں مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کے ساتھ ہونے والے واقعہ کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور اگر ان کے ذمہ داروں میں کچھ بھی غیرت ہے تو انہیں چلو بھر پانی میں ڈ وب مرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ جس طرح کراچی میں واقعہ ہوا اسی طرح بلوچستان کے ایک مہمان کو ائیر پورٹ پر گرفتار

کر نا بھی بلوچستان کی روایات کے خلاف ہے،یہ مہمان داری کے خلاف ہے ہم اس کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کہتے ہیں مزار قائد پر نعرے لگائے تھے لیکن جب لاہور کی مسجد وزیر خان میں شوٹنگ ہوتی ہے اور مسجد میں آکر ادا کاری کرتے ہیں،فلمبندی کرتے ہیں،مسجد کی حرمت اس وقت تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی؟مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ نواز شریف اور بلاول بھٹو

نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کو خوش آمدید کہتا ہوں، دو دن ہوئے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس نام نہاد کابینہ میں بنایا گیا اور ایک جعلی صدر کے پاس بھیج دیا گیا اور عدالت میں پیش کیا گیا جہاں طویل سماعتوں کے بعد اس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں کچھ اقدار موجود ہیں تو عدالت کے فیصلے کے بعد انہیں حکومت

کرنے کا اخلاقی جواز بھی نہیں رہا لیکن کس بنیاد پر ایک شخص وزارت عظمیٰ اور صدارت کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا مؤقف تھا کہ یہ حکومت جعلی ہے اور اب ہمارے مؤقف کو مزید تقویت ملی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم آج بلوچستان کی سرزمین پر گفتگو کر رہے ہیں، 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دئیے گئے اور کوئی مائی کا لعل سوچے بھی

نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کریں گے، ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے، بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ کسی نادیدہ قوت کو عوام کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے کہاکہ این ایف سی ایوارڈ میں کمی لانے کی اجازت نہیں دینگے،ہم نادیدہ قوت کو بھی اس بات کی اجاز ت نہیں دے سکتے ہیں کہ عوام کے حق ملکیت پر ڈاکہ

ڈالنے کی کوشش کرے۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پاکستان کی تباہ حال معیشت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ہمارا اتحاد 5 سال مکمل کرکے آخری بجٹ دے رہا تھا تو اگلے سال کا تخمینہ 5 فیصد رکھا تھا تاہم ان نالائقوں نے ایک سال میں 1.8 فیصد پر لے آئے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پچھلے سال آزادی مارچ میں بھی کہا تھا کہ یہ لوگ

مزید رہے تو ملکی معیشت اور تباہ ہو جائیگی اور پھر وہی ہوا اور بعد میں جو بجٹ پیش کیا اس میں سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے چلا گیا، پاکستان کنگال ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آج کی دنیا میں ریاستوں کی بقا ء کا دار و مدار معیشت پر ہے، روس کی مثال سب کے سامنے ہے حالانکہ دفاعی لحاظ سے مضبوط تھا تاہم معیشت تباہ ہوئی تو واپس روس بن گیا۔ مولانا فضل

الرحمن نے کہاکہ یہی ہندوستان تھا اور اسی جماعت کا واجپائی وزیراعظم تھا، اس وقت پاکستان کی معیشت بہتر تھی اور بھارت پاکستان سے تجارت کر نا چاہتا تھا،بس پر چڑھ کر واجپائی لاہور آیا اور پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان اور ایران آپ سے کاروبار کرنا چاہتے تھے، مشرقی وسطیٰ آپ کے ساتھ کاروبار کر نا چاہتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ آج بھارت میں مودی کی

جماعت کی حکومت ہے تاہم مودی کا رویہ پاکستان کے ساتھ دشمنی کا ہے، جو صاف بتا رہا ہے کہ پاکستان اب معاشی لحاظ سے کنگال ہو چکا ہے،ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان پاکستان کا خاتمہ کر ناچاہتا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہم نے معاشی ترقی کے نئے راستے ڈھونڈے، ہم نے چین سے رابطہ کیا، چین کی 70سالہ دوستی کی تاریخ رہی جس کی مثالیں اب تک

جاتی رہیں،پھرمعاشی دوستی میں تبدیل ہوئی 70ارب ڈالر پاکستان میں خرچ کئے، تاکہ صنعتی علاقے قائم ہوں، بجلی کے میگا پراجیکٹ لگیں،بجلی کی پیداوار بڑھاسکیں،، معیشت مستحکم ہو لیکن جب ان لوگوں کے ہاتھ میں حکومت آئی تو انہوں نے نیا فلسفہ دیا کہاکہ پاکستان اس طرح کے میگا پراجیکٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا، پاکستان سی پیک کا متحمل نہیں ہوسکتا، بجلی کی پیداوار کے

بڑے منصوبوں کا متحمل نہیں ہوسکتا اور ہمیں چھوٹے منصوبے چاہئیں اور مرغی، انڈے اور کٹے جیسے منصوبے پیش کردئیے۔انہوں نے کہاکہ اب افغانستان بھی بات کرنے کو تیار نہیں تاہم ایک وقت تھا کہ ایران سے گیس لائن کی بات ہو رہی تھی جبکہ اب ایران بھی بھارت کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور چین بھی ناراض ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا محور کشمیر رہا ہے لیکن جو کچھ

کشمیر اور گلگت بلتستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا عمران خان نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا نہیں دیا تھا، انہوں نے دعا کی کہ اللہ میاں بھارت میں مودی جی کی حکومت آئی، جب بھارت نے کشمیر کو ختم کیا تو گھر میں خاموش بیٹھے رہے، ہم کشمیریوں کو جسم کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن یہ تاثر دینا کہ پاکستان کا صوبہ بنائیں لیکن اقوام متحدہ میں کشمیر کے

نقشے پیش کیے تھے اس میں آل جموں و کشمیر میں گلگت بلتستان کو پیش کیا تھا۔انہوں نے کہاکہ آج اس ایک حصے پر ہم قبضہ کریں اور دوسرے پر وہ قبضہ کریں تو پاکستان کے مؤقف کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، ہمیں کہتے ہیں اے پی سی کی وجہ سے بھارت خوش ہوتا ہے، بھارت نے اس وقت خوشی منائی جب اس حکومت نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم پر غداری کا مقدمہ درج کیا

اور یہ پیغام سرحد پار کشمیریوں اور بھارت کو دے رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے کشمیریوں کے خون پر سیاست کی، ان کے خون کو بیچا، کشمیری بچوں اور خواتین کے خون پر سیاست کی اور اس طرح کی پالیسی سے ہمارے مؤقف کا کیا ہوگا؟۔انہوں نے کہا کہ جو حشر پشاور میں بی آر ٹی کا ہوا ہے وہ حشر پورے ملک میں سی پیک کا ہوا ہے بلکہ پاکستان کا ہوا ہے،بات بڑی

واضح ہے کہ ہم پاکستان کو ایک ریاست کے طور تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ ہم بار بار اس سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں اور ایسے حالات میں جب ملک معیشت تباہ ہوچکی ہے اور وہ تباہی ریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے تو ان حالات میں اب ہمارا میدان میں آنا پاکستان کی بقا اور اس کی حفاظت کے لیے ہوسکتا ہے اور کوئی مقصد نہیں ہوسکتا۔پی ڈی ایم کے صدر نے کہا کہ ہم

اداروں کے دشمن نہیں، ادارے ملک کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں، ہم اداروں اور اداروں کے ذمہ داران کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر وہ پاکستان پر مارشل لا مسلط کرتے ہیں یا ایک جعلی حکومت کی پشت پناہی کرتے ہیں تو پھر ان سے گلہ کرنا، ان سے شکایت کرنا اور ان سے احتجاج کرنا ہمارا حق بن جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری اسٹبلشمنٹ آج بھی جعلی حکومت کی پشت پناہی سے

دستبردار ہوجائے، آج بھی قوم کے سامنے معذرت کرلے کہ ہم نے انتخابات میں غلط کیا تھا، ہم نے قوم کا مینڈیٹ تباہ کیا تھا تو ہم آج بھی ان کو اپنی آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں۔انہوں نے کہاکہ میں طاقت ور سے طاقت ور کی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں جس کے تحت وہ عوام کو جانور سمجھیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسی حکمرانی تسلیم کرو اور ان کی عزت کرو تو ہمیں تسلیم

نہیں۔انہوں نے کہا کہ این آر او ہماری ضرورت نہیں، اب این آر او تمھاری ضرورت ہے۔ انہونے کہاکہ کہنے لگے ایک کروڑ نوکریاں دوں گا اور اس طرح دھوکا دے کر نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی حکومت نہیں چاہیے، ہمیں سنجیدہ حکومت چاہیے، میں آپ کی حکومت کا انکار کرتا ہوں، میں نے پہلے دن آپ کی حکومت تسلیم

نہیں کی اور آج بھی اس پر ڈٹا ہوا ہوں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا، ظلم سے نکلنا چاہتے ہوتو ہمت کرو آگے بڑھو، پاکستان کے جوانوں اور بزرگوں، ماؤں اور بہنوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو آزاد اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہو تو جدوجہد کرنا پڑے گی، گھر میں بیٹھے بیٹھے حالات نہیں بدلتے۔انہوں نے کہا کہ ہماری فوج ہمیں عزیز ہے، میرے

نزدیک فوج کی حیثیت آنکھوں کی پلکیں کی طرح ہیں، پلکیں آنکھوں کی سرحدات کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ صرف سرحدات پر رہتی ہیں لیکن جب کوئی بال آنکھ میں آئے تو آنکھ بے قرار ہوتی ہے، اشک بہاتی ہے، اشک بہاتے بہاتے وہ بال نکل جائے ورنہ اس بال کو نکالنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہاکہ طاقت ور لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ

ہماری محبت اور ہماری وفاداریوں کا مذاق مت اڑاؤ، قوم کو اس حد تک مت لے جاؤ کہ واپس آنا مشکل ہو جائے، ہم نے اس ملک کو ایک رکھنا ہے، عوام کے حقوق کی بات کرنی، چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات کرنی، دنیا میں پاکستان کی عزت و وقار کو اونچا کرنا ہے، اسی نقطہ نظر کو لے کر ہمت و جرات سے آگے بڑھنا ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…