اسلام آابد(مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’جے آئی ٹی ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔علامہ اقبال 1931ءمیں دوسری گول میز کانفرنس کے لیے لندن تشریف لے گئے‘ کانفرنس کے دوران اٹلی کے آمربنیٹو میسولینی نے انہیں روم آنے کی دعوت دی اور علامہ صاحب نومبر کے تیسرے ہفتے روم پہنچ گئے‘ 27 نومبر 1931ءکو دونوں کی ملاقات ہوئی۔
میسولینی سیاست سے پہلے صحافی تھا‘ وہ دانش وروں کا بہت احترام کرتا تھا۔علامہ صاحب کی فکر اس وقت تک یورپ میں متعارف ہو چکی تھی‘ جرمن اور اطالوی فلسفی انہیں پسند کرتے تھے لہٰذا میسولینی علامہ صاحب سے بڑی محبت اور احترام کے ساتھ پیش آیا‘ گھٹنے جوڑ کر ان کے سامنے بیٹھا اور دیر تک ان کی گفتگو سنتا رہا‘ علامہ صاحب کی گفتگو کا مرکزی نقطہ یورپ کا اخلاقی دیوالیہ پن تھا‘ آپ کا کہناتھا اٹلی کے لوگ اگر اپنےملک کا مقدر بدلنا چاہتے ہیں توپھر انہیں یورپی اقدار کے چنگل سے نکل کر مشرقی اخلاقیات کو اپنانا ہو گا‘ علامہ صاحب اسے ”اسلامک ویلیوز“ اور سیرت کے بارے میں بھی بتاتے رہے‘ گفتگو کے آخر میں میسولینی نے علامہ صاحب سے عرض کیا ”آپ مجھے نبی اکرم کا کوئی ایسا قول (حدیث) سنائیں جو میرے لیے نیا بھی ہو اور حیران کن بھی“ علامہ صاحب مسکرائے اور فرمایا ”ہمارے رسول کا فرمان تھا شہروں کی آبادی کو ایک حد سے نہ بڑھنے دو‘ شہر جب اس حد کو چھونے لگیں تو اس سے ذرا سے فاصلے پر نیا شہر آباد کر لو“۔میسولینی نے پوچھا ”اس میں کیا حکمت ہے؟“ علامہ صاحب نے فرمایا ”آبادی جب حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو شہر کی معاشی طاقت کم زورہو جاتی ہے جس سے معاشی زوال آتا ہے اور اس معاشی زوال سے غیر اخلاقی سرگرمیاں جنم لینے لگتی ہیں یوں شہر رہنے کے قابل نہیں رہتے“ علامہ صاحب رکے اور فرمایا ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘ آبادی کی حد سے پہلے نیا شہر بسا لو تاکہ معاشرے کی اخلاقیات تباہ نہ ہوں“۔میسولینی تھوڑی دیر تک حیرت سے علامہ صاحب کی طرف دیکھتا رہا‘ پھر کھڑا ہوا اور پرجوش آواز میں بولا ”واہ کیا شان دار آئیڈیا ہے“۔ میسولینی کیوں اتنا حیران ہوا؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا روم دنیا کا پہلا شہر تھا جس کی آبادی دس لاکھ تک پہنچی تھی جس کے بعد روم مافیاز کے کنٹرول میں چلا گیا اوریوں دنیا کی پہلی سپرپاور رومن ایمپائر ختم ہو گئی تھی۔