اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تسلیم کرتے ہیں ایک جج پر سوال اٹھے تو پورے ادارے پر سوال اٹھتے ہیں، کوئی بھی جج احتساب سے بالا نہیں ہے لیکن کسی جج کو عمومی انداز میں چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،الزامات میں کرپشن اور بددیانتی کی بات نہیں،آرٹیکل 10 اے پر مطمئن کیا جائے، عدالت اس نتیجے پرپہنچی کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو حکومت کا احتساب ہوسکتا ہے۔
پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔دور ان سماعت وکیل منیر اے ملک نے تحریری جواب پیش کر دیا،عدالت نے وکیل منیر اے ملک کو جواب جمع کرنے کی اجازت دیدی۔ فروغ نسیم نے کہاکہ عدالت کے سامنے مس کنڈیکٹ پر دلائل دوں گا، جج کے مس کنڈیکٹ کو کسی قانون کی خلاف ورزی تک محدود نہیں کرسکتے۔فروغ نسیم نے کہاکہ اہلیہ معزز جج کی. فیملی کا حصہ ہے، معزز جج اور اہلیہ دونوں نے لندن کی جائیدادیں ظاہر نہیں کی۔ فروغ نسیم نے کہاکہ آرٹیکل 63 میں اہلیہ کے زیر کفالت کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں رکھی گئی، برطانیہ میں اہلیہ کی جانب سے بار کو خط لکھنے پر جج کے خلاف کارروائی ہوئی، پاکستان کا آئین غیر جانبدار ہے۔فروغ نسیم نے کہاکہ آرٹیکل 209 میں اہلیہ کو زیر کفالت یا خود کفیل رکھنا بلا جواز ہے،کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے،جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ فروغ نسیم صاحب کیا آپکا یہی مقدمہ ہے،جو دلائل آپ دے رہے ہیں یہ آپکا مقدمہ نہیں ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ آپکی دلیل یہ تھی کہ ہمارا مقدمہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کا ہے،
آپکا نقطہ یہ تھا مواد کونسل کے سامنے آنے کے بعد باقی چیزوں کی اہمیت نہیں رہی۔ فروغ نسیم نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے پاس آنیوالے مواد پر از خود کاروائی کا اختیار ہے،الیکشن کمیشن نقائص پر مبنی درخواست پر کاروائی کر سکتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ یہ بتائیں کونسل کے سامنے جج کیخلاف آمدن سے زائد ذرائع کا مواد کیا تھا۔ فروغ نسیم نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے 2008.9 میں بطور وکیل اپنی آمدن ظاہر کی۔ جسٹس مقبول باقر
نے کہاکہ کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کیلئے جج نے پیسے دئیے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں 15 سال کا ہمارا عزت و احترام کا رشتہ ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ احترام کا رشتہ برقرار رہے گا سب چاہتے ہیں کیس کا جلد فیصلہ ہو۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ہمارے ملک میں 1990 کے بعد ایسا میکانزم بنایا گیا جس کے تحت کوئی حساب نہیں ہے،الزام یہ ہے کہ لندن کی جائیدادیں کیسے خریدی گئی،
آرٹیکل 10 اے پر بھی مطمئن کریں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ صدارتی ریفرنس میں تشویش جائیداد خریدنے کے ذرائع ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ اگر تسلیم کر لیں تو پھر تمام ججز سے ٹیکس کا جوڈیشل کونسل پوچھے گی؟۔ فروغ نسیم نے کہاکہ جوڈیشل کونسل جج کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ اگر ایف بی آر کہہ دیں کہ اہلیہ نے جائیدادیں اپنے وسائل سے حاصل کی ہے تو پھر صورتحال کیا ہوگی۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون کے آرٹیکل 116 کے خلاف ورزی کا ہے، آپ تو ٹیکس قانون کے ماسٹر ہیں۔فروغ نسیم نے کہاکہ ہمارا مرکزی مقدمہ کن وسائل سے یہ جائیدادیں خریدی گئی، آرٹیکل 116 کے خلاف ورزی ایک چھوٹا سا نقطہ ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایف بی آر اہلیہ سے ذرائع پوچھ لے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ ایف بی آر پوچھے اور اہلیہ جواب دے دیں تو کیس ختم ہو جائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ
پھر اس بات پر اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ جواب قاضی فائز عیسیٰ ہی دیں۔ فروغ نسیم نے کہاکہ جج کیخلاف ڈسپلنری کاروائی کونسل کر سکتی ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ اس مقدمے میں 9 ماہ گزر چکے ہیں۔ فروغ نسیم نے کہاکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ سروس آف پاکستان کے ملازم کے بچے رولز رائس گاڑی چلائیں، اگر 1969 کا قانون اتنا برا تھا تو اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ ختم کر دیتی۔وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس عمر عطا ء بندیال نے کہا کہ
تسلیم کرتے ہیں ایک جج پر سوال اٹھے تو پورے ادارے پر سوال اٹھتے ہیں۔فروغ نسیم نے کہاکہ بھارت میں 6 لاکھ کی وضاحت نہ کرنے پر جج کو گھر بھیج دیا گیا، اسی مقدمے کی بنیاد پر بھارت میں عدالتی تاریخ رقم ہوئی، بھارت میں جج کیخلاف فوجداری کارروائی کو الگ رکھا گیا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ بھارت میں جج کیخلاف کارروائی کے وقت مکمل مواد پیش کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا جج صاحب ایف بی آر سے اپنی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ لے سکتے ہیں،
اگر ایف بی آر راز داری کی وجہ سے جج صاحب کو اہلیہ کا ریکارڈ نہیں دے گا تو جج انضباطی کارروائی کا سامنا کیسے کریگا۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایف بی آر خاوند کو اہلیہ کے گوشوارے یا ٹیکس معلوم دینے سے انکار کر دے تو پھر راستہ کیا ہوگا۔ فروغ نسیم نے کہاکہ میں اس سوال کا تفصیلی جواب دوں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ابھی سوال کا جواب دے دیں۔ فروغ نسیم نے کہاکہ مجھے متعلقہ قوانین کو دیکھنا ہوگا پھر جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے
فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ اس سوال کو نوٹ کر لیں۔فروغ نسیم نے کہاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑا مقدس ہوتا ہے، مسلمانوں کے جج پر عوام کا اعتماد بڑا مقدس ہے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ ہم امید کرتے ہیں ہمارے جج کا کوڈ آف کنڈکٹ بہت اعلیٰ ہے، جج کے پاس جوڈیشل اختیار اللہ کی امانت ہے۔فروغ نسیم نے کہاکہ ہمارے معاشرے میں جج کی بڑی عزت و تکریم ہے، جج معاشرے میں بڑا بااختیار ہوتا ہے، اسکی بہت عزت ہوتی۔فروغ نسیم نے کہاکہ عوام کا عدالت عظمیٰ کے جج پر اندھا اعتماد ہوتا ہے،
عوام کا عدلیہ پر اعتماد مجروح نہیں ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بڑی اہم ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ عدلیہ کی آزادی کا ہے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ یہ عدلیہ کی آزادی کا مقدمہ بھی ہے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ذہن میں رکھیں کہ مسئلے کا حل کیا ہے؟اگر آرٹیکل 116خاوند اہلیہ کے اثاثے بتانے کا پابند نہیں۔انہوں نے کہاکہ شو کاز نوٹس بڑا اہم ہے، آپ اس پر انحصارکررپے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی قابل احتساب ہے۔
انہوں نے کہاکہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو ہوسکتا ہے حکومت کا احتساب ہو۔فروغ نسیم نے کہاکہ بالکل وزیر قانون، وزیر اعظم، صدر مملکت سب قابل احتساب ہیں۔فروغ نسیم نے کہاکہ جائیدادیں جج کی اہلیہ کی ہیں،لگتا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ بیگم صاحبہ ایف بی آر کو مطمئن نہ کر پائیں تو اثاثے چھپانے کا کیس اہلیہ پر بنے گا، جج صاحب پر سارا الزام کیسے آئے گا؟۔ انہوں نے کہاکہ قانون دکھا دیں کہ خود کفیل اہلیہ وسائل بتانے میں
ناکام ہوتی تو پھر بوجھ جج پر آئے گا،انضباطی کارروائی کا قانون بدل نہیں سکتا۔ فروغ نسیم نے کہاکہ جائیداد کی خریداری کی وضاحت نہ آنا بڑا اہم ہے۔ جسٹس منصو علی شاہ نے کہاکہ سوشل میڈیا کا دور ہے جج پر جو مرضی کیچڑ اچھال دیں، آپ کہیں گے کہ جج کی ساکھ خراب ہو گئی۔ فروغ نسیم نے کہاکہ جھوٹی خبر شیئر ہوتی ہے، زیادہ دیر نہیں چل سکتی، یہاں پر جج کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں مہنگی جائیدادیں ہیں،یہ تاثر غلط ہے ہوگا کہ جج صاحب اہلیہ کی جائیداد پر وضاحت نہیں دے رہے۔ جسٹس مقبول باقر
نے کہاکہ قانون کے مطابق اہلیہ اور بچوں سے پوچھ لیں جائیداد کیسے خریدی۔فروغ نسیم نے کہاکہ جج صاحب نے جائیداد کی خریداری کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار نہیں کیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کس قانون کے تحت کونسل جج سے اہلیہ کی جائیداد بارے پوچھ سکتی ہے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ سب سوالوں کے جواب دوں گا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ عدالت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے،کیا ایک جج کی نجی زندگی میں اہلیہ اور بچے کی زندگی بھی شامل ہے،آپ کے سامنے انکم ٹیکس اور جوڈیشل کونسل کے متعین قوانین موجود ہیں،آپ ہمیں مختلف قوانین پڑھا رہے ہیں،آپ انکم ٹیکس اور جوڈیشل کونسل کے متعین قوانین کے تحت دلائل دیں۔
انہوں نے کہاکہ آپ کہتے ہیں بیرون ملک جائیداد رکھنا مناسب نہیں،آج آپ نے بڑی اہم بات کی،جج کی اہلیہ کو پبلک آفس ہولڈر خاوند کیوجہ سے مراعات ملی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فروغ نسیم صاحب اپنے دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لینگے،یہ بھی ذہن میں رکھیں کے عدالت کونسل کے اختیارات سے آگاہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک جج کو عمومی باتوں سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا،آپ کا موقف ہے کہ اصل سوال جائیداد کی خریداری کے ذرائع کا ہے،آپ کے تمام الزامات میں کرپشن اور بدیانتی کی بات نہیں،پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار سمیت ملک کی تمام بار جج کی دفاع میں آئی ہیں،بارکونسل کے مطابق جج پر بدنیتی اور کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے،جج بھی قابل احتساب ہیں،جج شیشے کے گھرمیں رھتے ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ جج صاحب کہتے ہیں کہ جائیدادوں سے متعلق اہلیہ سے پوچھا جائے۔فروغ نسیم نے کہاکہ مجھے دلائل دینے میں مزید 2 دن لگ سکتے ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ لگتا نہیں 2 دن میں آپ دلائل مکمل کر پائیں گے۔بعد ازاں کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی۔