اسلام آباد(آن لائن)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بجٹ کے حوالے سے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ دستاویز غلط بیانی پر مبنی ہے،کورونا کے لئے کچھ مختص نہیں کیا۔حکومت عوام کی جیب سے پٹرولیم لیوی کی مدمیں200 ارب روپے اضافی نکالے گی۔سود کی ادائیگی کے لئے قرض حاصل کرکے دلدل میں پھنس رہے ہیں۔ہماری حکومت نے قرض لے کر شرح نمو میں اضافہ کیا۔
جمعہ کے روز نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے بجٹ میں سچ کی قلت ہے۔حکومت نے اضافی ٹیکس نہ لگانے کا دعویٰ کیا لیکن 190ارب روپے کا پٹرولیم لیوی ٹیکس عائد کردیاگیا۔بجٹ ڈاکومنٹ میں ہمیشہ اعداد کا ہیر پھیر ہوتا ہے حکومتیں جو چیزیں چھپانا چاہتی ہیں وہ چھپا لیتی ہیں اور جن چیزوں کو نمایاں کرنا ہوتا ہے وہ نمایاں کی جاتی ہیں جبکہ موجودہ بجٹ ڈاکومنٹ مکمل طور پر غلط بیانی پر مبنی ہے۔کورونا کے حوالے سے کوئی ریلیف نہیں دیاگیا۔حکومت سے معیشت نہیں چل رہی گروتھ منفی ہے۔گزشتہ بجٹ کے نمبرز چیک کرلیں تو حقائق سامنے آجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت جہاں سے ٹیکس اکٹھا کرسکتی ہے وہاں سے نہیں کر رہی کیپیٹل گین ٹیکس کی پانچ سال سے کم کرکے چار سال کردی جس کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔انہوں نے استفسار کیا کہ معلوم نہیں حکومت نے کن بنیادوں پر شرح نمو دو اعشاریہ ایک فیصد دکھائی۔حکومت نے معیشت کو تباہ کردیا ہے۔حکومت کو انفراسٹرکچر پر زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔حکومت کے پاس ریونیو نہیں قرض لے کربجٹ بنا رہی ہے۔اس بجٹ کی حقیقت آئندہ تین ماہ میں کھل کر سامنے آجائے گی۔ہماری حکومت نے قرض ملک میں شرح نمو میں اضافے کیلئے جبکہ موجودہ حکومت سود کی ادائیگی کے لئے قرض لے کر دلدل میں پھنس رہی ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے آخری سال میں
سود کی رقم 1700ارب روپے تھی جو اب تین ہزار ہوگئی ہے۔حکومت ڈھائی ہزار ارب روپے کا نقصان کرکے آج وہیں پہنچ گئی ہے۔حکومت نے ہاٹ منی کو تحفظ دینے کیلئے شرح سود میں اضافہ کیا تھا۔ہاٹ منی کے لئے6 کے بجائے13فیصد شرح سودپر پیسہ لیا گیا۔ہاٹ منی کیلئے شرح سود میں اضافے پر کمیشن بننا چاہئے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کے بجٹ دستاویز میں کوئی چیز بھی مثبت نہیں ہے۔بجٹ دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے حکومت نہیں چل پارہی۔کورونا وائرس وباء کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صفر ہوگیا ہے۔معیشت کو بچانے کیلئے نیب کو ختم کرنا پڑے گا جبکہ ایف بی آر سمیت دیگر اداروں کے سخت سزاؤں کے اختیارات کو بھی ختم کرنا ہوگا۔