اسلام آباد( آن لائن )وزارت تجارت کے افسران نے گزشتہ 5 سالوں میں ملکی برآمدات میں اضافہ کی آڑ میں قومی خزانہ کے کروڑوں روپے اڑا دیئے لیکن کارکردگی صفر رہی، برآمدات میں اضافہ کے بجائے کمی واقع ہوگئی،تجارتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا،تجارتی ایکسپو اور کانفرنسز میں شرکت کی گئی اعلی ترین ہوٹلوں میں قیام کیا گیا اور گزشتہ سالوں میں کسی سال بھی تجارتی ہدف پورا نہیں ہو سکا ہے،
دستاویزات کے مطابق گزشتہ 5 سال کے دوران 180 افسران نے غیر ملکی دورے کرکے ملکی خزانہ سے 10 کروڑ روپے سے زائد خرچ کر ڈالا، دورے کرنے والوں میں سابق سیکرٹریز یونس دھاگہ بھی شامل ہیں جنہوں نے 7 غیر ملکی دورے کئے،غیر ملکی دوروں کے دوران ملکی خزانہ کو بے دردی سے خرچ کیا گیا اور ان پر کسی قسم کا کوئی چیک ایند بیلنس بھی نہیں رکھا گیا،دستاویزات کے مطابق وزارت تجارت کے اعلی افسران نے چین ،وسظی ایشیائی ریاستیں،ترکی ، یورپی یونین ،کوریا، ، ماسکو ،افریقہ کے دیگر ممالک کے دورے کئے،سابق سیکرٹری تجارت شہزاد ارباب نے بھی کئی غیر ملکی دورے کئے،اور قومی خزانہ کو بیدردی سے استعمال کرنے کا انکشاف ہوا ہے،شہزاد ارباب نے وزارت تجارت کے سیکرٹری کے طور پر 2015-16 کے دوران بیلارس اور بیلجیئم کا دورہ کیا،شہزاد ارباب اس وقت معاون خصوصی ہیں اس سے قبل موجودہ وزیر اعظم کے مشیر تھے ،2015-06 میں روبینہ اطہر ایڈیشنل سیکرٹری وزارت تجارت نے 6 سے 8 اگست کو جائنٹ اکنامک کانفرنس میں شرکت کیلئے پاک بیلاروس دورہ کیا اور 2 لاکھ 21 ہزارخرچ کئے جبکہ ہشہزاد ارباب نے اسی ہوٹل میں قیام کیا،اور اس اس کا خرچ 5 لاکھ 51 ہزار روپے آیا، حلانکہ ،ایک ہی ہوٹل میں دونوں اعلی افسران کا قیام رہا،اور دونوں سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری کا ایک ہی سٹیٹس تھا، اسی طرح 2015 میں شہزاد ارباب نے بیلجیم کا دورہ کیا اور اس دورہ پر چار لاکھ ،23 ہزار روپے خرچ کر ڈالے،
اسی طرح وزارت تجارت کے 180 افسران نے دورے کئے ،اور قومی خزانہ کا بے دریغ استعمال کیا، جس کی ایک مثال وزارت کے دو سیکشن افسر بھی شامل ہیں۔ سیکشن آفیسر عدنان لودھی نے جنیوا کے دورہ کے دوران 2 لاکھ 69 ہزار روپے خرچ کئے جبکہ سیکشن افسر احمد فصیح نے ایک لاکھ 70 ہزار خرچ کئے ہیں،حالانکہ دونوں سیکشن افسران نے ایک ہی کانفرنس میں شرکت کی، ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا،لیئکن دونوں نے قومی کزانہ سے الگ الگ اخراجات وصول کئے، زفسوس ناک بات یہ کہ ابھی ان افسران کے دوروں کا نہ تو کوئی احتساب ہوا اور نہ ہی کوئی جواب طلبی ہو سکی۔