اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے کالم ’’کورونا کورونا کردی نی میں آپے کورونا ہوئی!‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ایک بار ماضی کی ایک مشہور اداکارہ پر برا وقت آیا، اپنوں نے گھر سے نکال دیا، میں انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے لاہور کی ایک کچی بستی کے ایک تنگ و تاریک گھر پہنچا، شام کا وقت، ایک چارپائی پر مکھیوں کے جھرمٹ میں لیٹی اس اداکارہ نے اتنا بھی نہ کیا کہ میرے آنے پر پیٹ سے
ہٹی قمیص ٹھیک کر لیتی، سر کے نیچے رکھے دوپٹے سے پھٹی قمیص ڈھانپ لیتی، وہ 3گھنٹے جو وہاں گزرے کبھی نہ بھول پائے۔یہ علیحدہ بات بعد میں اسی اداکارہ کو ہم کچھ دوست پوش علاقے میں لانے میں کامیاب ہوئے، یہ ٹی وی، فلموں میں پھر سے مصروف ہوئی، اس کے اچھے دن آئے، رشتہ داروں سے گھر کا قبضہ بھی واپس مل گیا، مگر وہ کچی بستی، وہ پیشاپ بھری گلیاں، وہ بدبودار ماحول، وہ تنگ و تاریک سلین زدہ مکان، وہ پرانی چارپائی، وہ دوپٹہ سر کے نیچے رکھے خود سے بے خبر لیٹی اداکارہ، جو کبھی اسکرین پر آتی، لوگوں کی سانسیں رک جاتیں، جو آنکھیں گھما گھما کر بولتے ہوئے اک شانِ بے نیازی سے ہنستی تو لوگ سینما ہال سر پر اٹھا لیتے۔مجھے وہ اداکار بھی یاد، جسے ایک روز دوائی کیلئے 5سو روپوں کی ضرورت تھی اور اس دن 5سو روپے کیلئے اس نے اپنا ایک ایوارڈ بیچ دیا، وہ ایک ایک لقمے کو ترستی مر گئی، ڈرامہ ’عینک والے جن‘ کی بل بتوڑی اور ابھی کل ہی 36سو روپے گیس کا بل ہاتھ میں پکڑے بدعائیں دیتا، آنسو بہاتا جاوید کوڈو۔ہمارے مزاج ایسے گٹری، ایک دوسرے کو یاد کرنے، ایک دوسرے کا حوالہ دینے، ایک دوسرے کا تعارف کرانے کا انداز بھی بدبودار، جیسے وہ فلاں کو جانتے ہو، کون فلاں، وہی جس کے باپ پر نیب کا کیس بنا تھا، وہ فلاں کو جانتے ہو، کون فلاں، وہی جس کا چچا فلاں عورت کو بھگا کر لے گیا تھا، وہ فلاں آج ملا تھا، کون فلاں، وہی جسے اس کی بیگم چھوڑ گئی تھی۔ہم صبح سویرے الزاموں، دشنام طرازیوں کے ٹوکرے سر پر رکھے گھر سے نکلیں، شام تک ایک زمانے کا منہ کالا کر کے گھر لوٹیں، ہمیں پتا ہی نہ چلے اصل میں سارا دن ہم بڑی محنت سے اپنا ہی منہ کالا کرتے رہے، بندہ چاہے جتنا باعزت ہو، وہ ہم سے ملا بھی نہ ہو، مگر ہم یوں اس سے عیب درعیب نکالیں گے جیسے اس کے ہر عیب کے ہم چشم دید گواہ۔میں اکثر سوچوں، ہم ایک دوسرے سے اتنا حسد کیوں کرتے ہیں، ہم ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کیوں لگے رہتے ہیں، ہمیں دوسروں کی عزت، کامیابی، خوشی ہضم کیوں نہیں ہوتی، مجھے اکثر لگے، ہم سب لاعلاج ہو چکے، ایسے ہی جیسے کورونا وائرس، لیکن عین ممکن کورونا وائرس کا علاج تو دریافت ہو جائے مگر ہم کورونے لاعلاج ہی رہیں، کورونے حکمراں، کورونی قوم، کورونا کورونا کردی نی میں آپے کورونا ہوئی۔