اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’غبارے پھاڑنے کے علاوہ‘‘میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔ہم اسحاق ڈار کی تازہ سیاسی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ پہلے حصے میں 2013ءسے 2017ءتک چار سال آتے ہیں اور دوسرادوراکتوبر2017ءسے آج تک پر محیط ہے‘ مجھے آج یہ اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے ہم ڈار صاحب کو پہلے حصے میں
پاکستان کا ولن سمجھتے تھے‘ ہم نے انہیں اسحاق ڈالر بھی کہا‘ منشی بھی کہا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا خطاب بھی دیا لیکن یہ جوں ہی پاکستان سے ”فرار“ ہوئے یہ ہر آنے والے دن میں ہیرو بنتے چلے جا رہے ہیں۔حکومت کی ہر معاشی حماقت اسحاق ڈار کو مضبوط سے مضبوط کرتی چلی جا رہی ہے اور وقت یہ ثابت کرتا جا رہا ہے پاکستان کی معیشت کو اگر کوئی شخص سمجھتا تھا تو اس کانام اسحاق ڈار ہے‘ ہمیں آج ماننا پڑے گا یہ اسحاق ڈار کا کمال تھا ڈالر103روپے پر مستحکم تھا‘ شرح سودساڑھے چھ فیصدتھی‘ مہنگائی5.8فیصد تھی‘ ٹیکس کی آمدنی 1900ارب روپے سے 3800 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی‘ بجلی اور گیس کے نرخ بھی کم تھے اور گروتھ ریٹ 5.8فیصد تھا اور ملک میں دھڑا دھڑ معاشی سرگرمیاں بھی چل رہی تھی‘ بجلی کے ساڑھے دس ہزارمیگاواٹ کے پراجیکٹ بھی لگے‘ قطر سے ایل این جی منگوا کر گیس بھی پوری کر دی گئی‘ پنجاب میں تین میٹروز بھی بنیں‘ پورے ملک کو موٹرویز سے بھی جوڑ دیا گیا‘ سی پیک بھی شروع ہو گیا اورڈیموں پر بھی کام ہونے لگا چناں چہ ہم جتنے بھی مخالف ہو جائیں‘ ہم جتنے بھی بغض اور نفرت سے بھر جائیں ہمیں دل پر پتھر رکھ کر یہ ماننا پڑے گا یہ ملک اسحاق ڈار کے زمانے میں ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا اور یہ ترقی بھی کر رہا تھالیکن جوں ہی یہ وزارت خزانہ کی کرسی سے اٹھے ملک کو ریورس گیئر لگ گیا‘
شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے‘ یہ ن لیگ ہی کا دور تھا لیکن ڈالر 115روپے پر چلاگیااور پھر رہی سہی کسر عمران خان کی حکومت نے پوری کر دی‘ ڈالر آج 155روپے ہے‘ ملک میں سولہ ماہ میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں ہوا لیکن معیشت کا جنازہ نکل گیا‘ منہگائی 15فیصد تک پہنچ گئی۔آٹا اور چینی غائب ہے‘ خوراک کی اشیاء78 فیصد تک منہگی ہو چکی ہیں‘
وزیر اعظم اپنے منہ سے فرما رہے ہیں ”میری تنخواہ میں میرا گزارہ نہیں ہوتا“ پارلیمنٹ کے اندر دہائی دی جا رہی ہے‘ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں‘ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں اور بازار ٹھنڈے پڑ گئے ہیں‘ ملک کے معاشی حالات جتنے خراب ہو رہے ہیں لوگوں کو اتنا اسحاق ڈار یادآ رہے ہیں اور لوگ اب سرعام یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں ”آپ اسحاق ڈار کو لے آئیں ملک واپس اپنے ٹریک پر آ جائے گا“
چناں چہ ہمیں آج یہ ماننا ہو گا حکومت کی نااہلی نے کل کے ولن اسحاق ڈار کو آج کا ہیرو بنا دیا‘ لوگ اب انہیں یاد بھی کر رہے ہیں اور” اسحاق ڈار کو واپس لاؤ “ کے نعرے بھی لگا رہے ہیں۔اسحاق ڈار 1988ءسے گلبرک لاہور میں رہائش پذیر ہیں‘ یہ اکتوبر2017ءمیں ملک سے باہر چلے گئے‘ حکومت نے ان کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کا مقدمہ بنا دیا‘ یہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے
لہٰذاحتساب عدالت نے14 دسمبر 2017ءکو ان کی جائیدادقرق کرنے حکم دے دیا‘ دو اکتوبر 2018ءکو احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کی گاڑیاں اور اثاثے نیلام کرنے کا حکم بھی سنا دیا‘ اسحاق ڈار نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے ”سٹے آرڈر“ لے لیا تاہم حکومت باز نہ آئی اور اس نے 7فروری کو اسحاق ڈار کے گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کر دیااور وہاں بے گھر اور نادار لوگ آباد کر دیے۔
حکومت کے اس فیصلے کے دو پہلو ہو سکتے ہیں‘ اسحاق ڈار مفرور اور اشتہاری ہیں لہٰذا حکومت نے بطور سزا ان کے گھر میں بے آسرا اور بے گھر لوگوں کو آباد کر دیا‘ یہ نیکی کا کام ہے اور اس نیکی میں عمران خان اور عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ اسحاق ڈار کو بھی ثواب ملتا رہے گا وغیرہ وغیرہ‘ ہم اگر اس دلیل کو مان لیں تو پھر صرف اکیلے اسحاق ڈار مفرور نہیں ہیں‘ جنرل پرویز مشرف‘ الطاف حسین‘
شوکت عزیز اور جنرل کیانی کے بھائی کامران کیانی بھی مفرور ہیں اور عدالتوں نے انہیں بھی اشتہاری قرار دے رکھا ہے چناں چہ پھر حکومت نیکی کے اس کام میں ان مفروروں کو بھی شامل کر لے۔ملک میں جنرل پرویز مشرف کے پانچ گھر ہیں‘ الطاف حسین کی خفیہ اور ظاہری جائیدادیں بھی پورے کراچی میں بکھری ہوئی ہیں‘ شوکت عزیز بھی وسیع پراپرٹی کے مالک ہیں‘ پولیس فاؤنڈیشن میں بھی
ان کے نام پر پلاٹس موجود ہیں اور کامران کیانی کی جائیداد اور کارنامے بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لہٰذا حکومت ان کے گھروں کو بھی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دے‘ آپ یہ گھر بھی بے آسرا اور بے سہارا لوگوں کے لیے کھول دیں‘ یہ تمام مفرور بھی بیمار ہیں اور انہیں بھی غریبوں اور ناداروں کی دعائیں چاہییں۔لوگ انہیں بھی جھولی پھیلا کر دعائیں دیں تاکہ یہ بھی دنیا اور آخرت دونوں میں
سرخرو ہو سکیں‘ دوسرا پہلو حکومت انتہائی غریب لوگوں کو بڑے گھروں میں ٹھہرا کر دو کی بجائے ایک پاکستان بنانا چاہتی ہے‘ یہ سپرٹ بھی بہت اچھی ہے لیکن یہ سلسلہ بھی صرف اسحاق ڈار تک کیوں محدود رکھا جائے‘ وزیراعظم مہربانی فرما کر اپنے گھر اور اپنے وزراءاور دوستوں کے گھروں کو بھی اس کار خیر میں شامل کر لیں‘ وزیراعظم کے پاس بنی گالا میں تین سو کنال زمین موجود ہے۔