مصری لوگ اپنے مُردوں کو قبرستان میں کیوں نہیں دفناتے ،میت کو گھر کے کس حصے میں رکھ دیا جاتا ہے؟ اس کے پیچھے کیا راز پوشید ہ ہے ؟تہلکہ خیز انکشافات

28  جنوری‬‮  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم مصری کیسے لوگ ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔یہ ایک گلی ہے جسے یہ لوگ شاہراہ اشرافیہ کہتے ہیں‘ اس سڑک پر درجنوں مزارات ہیں‘ مجھے قاہرہ میں پانچویں مرتبہ مسجد حسینی جانے کی سعادت حاصل ہوئی‘ اس مسجد میں حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک دفن ہے‘ میں نے امام شافعی ؒ‘سیدہ سکینہؓ ‘ سیدہ سفینہ ؓ ‘ حضرت امام جعفر صادق ؓ کے

صاحبزادے علی بن جعفرؓ اور رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی سیدہ عاتکہ ؓ کے مزارات پر بھی حاضری دی۔ یہ ایک شان دار روحانی تجربہ تھا اور میں ابھی تک اس کے سرور میں ہوں۔مصریوں کی چند روایات بہت ہی دلچسپ ہیں۔ مثلاً یہ مُردوں کو قبرستانوں میں دفن نہیں کرتے تھے‘ یہ اپنے گھروں میں مُردوں کیلئے ایک کمرہ مختص کر دیتے تھے‘ کمرہ زیر زمین ہوتا تھا‘ یہ نماز جنازہ کے بعد مردے کو اس کمرے میں رکھ آتے تھے اور کمرے کو سل سے بند کر دیتے تھے‘ قدیم قاہرہ میں ایسے سیکڑوں کمرے آج بھی موجود ہیں‘ مصر کے بعض گھرانے آج بھی مُردوں کو اسی طرح دفن کرتے ہیں۔ ان کی تعزیت کا طریقہ بھی مختلف ہے۔یہ میت دفن کرنے کے بعد رات دروازے کے باہر ٹینٹ لگادیتے ہیں‘ ٹینٹ کو قمقموں سے روشن کرتے ہیں‘ اپنے تمام دوست احباب کو اطلاع کرتے ہیں‘ گھر کے مرد اور خواتین سوٹ پہن کر‘ ٹائی لگا کر دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ لوگ بھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں‘ لواحقین سے ملتے ہیں اور ٹینٹ کے اندر کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں‘ مصر میں تعزیت کے لیے دریاں یا قالین نہیں بچھائے جاتے‘ لوگ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور انہیں قہوہ پیش کیا جاتا ہے۔قاری صاحب آتے ہیں اور لاؤڈ سپیکر پر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دیتے ہیں‘ تلاوت ختم ہوتے ہی تعزیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں‘ یہ لوگ تعزیت کے دوران کھانا دیتے ہیں اور نہ ہی اس ”فنکشن“ کے بعد تعزیت کی اجازت ہوتی ہے۔ مصر میں شہروں اور دیہات میں

تعزیتی محفلوں کے لیے ہال بھی بن چکے ہیں‘ یہ ہال مناسبات کہلاتے ہیں اور یہ میرج ہال کی طرح کام کرتے ہیں لیکن جو لوگ ہال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے وہ گلی میں ٹینٹ لگا کر تعزیت کا مرحلہ مکمل کر لیتے ہیں۔یہ لوگ ”فن لونگ“ بھی ہیں‘ یہ شام کو اپنی بیوی یا ہونے والی بیوی کو ساتھ لے کر گھر سے باہر نکل آتے ہیں‘ نیل کے کنارے بیٹھتے ہیں‘

کھانا کھاتے ہیں‘ موسیقی سنتے ہیں اور دیر تک گھومتے ہیں‘ قہوہ خانوں‘ حقوں اور شیشے کی روایت بھی بہت مضبوط ہے‘ یہ لوگ دفتروں اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر آتے ہیں‘ نہاتے ہیں‘ صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں‘ قہوہ خانے میں بیٹھ جاتے ہیں‘ حقہ یا شیشہ پیتے ہیں اور ساتھیوں کے ساتھ گپ لگاتے ہیں۔ یہ موسیقی کے بھی رسیا ہیں۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…