کراچی (این این آئی) عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے قوم پرستی کو سندھ کیلئے زہر قاتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رویے نہ بدلے تو کراچی کے سندھ سے ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔ پاکستان کسی قومیت نے نہیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں نے بنایا۔ جس وقت تحریکِ آزادی کی جدوجہد چل رہی تھی اس وقت مسلمانانِ ہند کی زبان اردو تھی۔ اور ہندوؤں کی زبان ہندی تھی۔ یہی قیامِ پاکستان کی بنیاد تھی۔
انہوں نے یہ باتیں جی ایم سید کی 116 ویں سالگرہ پر وکلا برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ جسٹس وجیہ کا کہنا تھا کہ جی ایم سید مسلمانوں اور تحریکِ پاکستان کے لیڈر تھے۔ قائد اعظم بھی جی ایم سید سے مختلف نہیں۔ وہ بھی سندھ دھرتی کے بیٹے تھے۔ سندھ کا مسئلہ یہ ہے کہ سندھی زبان نہ سیکھنے کی وجہ سے دیگر قومیتوں کو اپنایا نہیں جا رہا۔ 1962ء تک اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی کیونکہ کراچی ملک کا دار الحکومت تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دیگر قومیت کے لوگ بھی سندھی سیکھتے۔ انہوں نے کہا کہ اصلی سندھی آج سے 500 برس پہلے یہاں ایک فیصد بھی نہیں تھے۔ یہ سب یہاں آکر سیلٹلڈ ہوئے۔ پھر بھی آبادیوں کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ صوبے میں 11 برس سے سندھی بولنے والوں کی حکومت ہے۔ محض دو تین نان سندھی حکومت میں ہیں۔ جو ہر وقت چاپلوسی کرتے ہیں۔ میرا پیغام ہے کہ افہام و تفہیم اور محبت کے ساتھ رہنا چاہیئے۔ اس وقت ایک سازش ہو رہی ہے کہ کسی طرح کراچی کو سندھ سے توڑ لیا جائے۔ انگریز ہانگ کانگ چھوڑ کر آئے ہیں اور اُنہیں اس کا متبادل چاہیئے۔ کراچی جیسی کلائمٹ دبئی تک نہیں۔ ان چیزوں کو سمجھ کر ہمیں اپنے معاملات چلانے چاہئیں۔ مل کر رہیں گے تو تنازعات ختم ہوسکیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختون، بلوچستان اور پنجاب میں جو لوگ قیامِ پاکستان کے بعد آکر آباد ہوئے۔ وہ فیسلیٹیٹ ہوگئے۔ آج کوئی کہہ نہیں سکتا کہ ان میں سے
کون مہاجر ہیں اور کون اُسی دھرتی کے ہیں۔ سندھ میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ میں اپنی بات کرنا چاہوں گا کہ میری جب بیٹی اسکول میں پڑتی تھی تو اسے دو تین زبانوں میں سے ایک سبجیکٹ منتخب کرنا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ بیٹا سندھی لے لو۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں۔ دراصل ہمارا مشترکہ دشمن سرمایہ دار اور بدعنوان سیاست دان ہے۔ یہ ہمیں لڑاتے ہیں۔ ایسے عناصر کے
مفادات ہمارے درمیان بدگمانیاں پیدا کرنے میں ہیں۔ ہماری جنگ ان کے خلاف ہے جو ناجائز طریقے سے اقتدار میں ہیں۔ جو جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ڈاکو ہیں۔ جسٹس وجیہ نے کہا کہ اب بھارت جو سیکولر ریاست کا دعویٰ کرتا ہے مسلمانوں کو ایک منظم سازش کے تحت ملک بدر کرنا چاہتا ہے۔ مودی سرکار کے بقول افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں آپریشن ہوا جس کے نتیجے میں یہ لوگ بھارت آئے۔
بھارت میں مسلمانوں کے سوا تمام مذاہب کو قبول کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل بھی تمام دنیا کے یہودیوں کو اپنا رہا ہے۔ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن سندھ میں یہ مسئلہ ہے۔ آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمیں پاکستان کی بہتری کیلئے کام کرنا ہے یا قومیتوں اور دیگر چھوٹے موٹے جھگڑوں میں پڑے رہنا ہے۔ یہ ہمارے ہی فیصلے ہیں جن کے تحت ہماری آنے والی نسلوں نے بہبود کی زندگی گزارنی ہے یا تو برباد ہونا ہے۔