اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ’’یہ صرف قبر نہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ایران اور سعودی عرب کے اندر شیعہ سنی اختلافات انتہا کو چھو رہے ہیں‘ پاکستان کے حالات بھی آپ کے سامنے ہیں لیکن اومان میں کسی قسم کی مسلکی تقسیم ہے اور نہ ہی قبائلی‘ لوگ نماز تک ایک ہی مسجد میں ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے آگے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں‘
آپ یونیورسٹیاں دیکھیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ آپ ہسپتال‘ سکول‘ کمیونٹی سنٹرز اور شاپنگ مالز دیکھیں‘ یہ بھی آپ کو حیران کر دیں گے اور آپ لوگوں کے رویے بھی دیکھ لیں۔ آپ ان کی شائستگی‘ تہذیب اور مہمان نوازی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے‘ آپ کو اگر موقع ملے تو آپ صرف مسقط کی جامع سلطان قابوس دیکھ لیں یا پھر مسقط کے اوپیرا ہاؤس کا وزٹ کر لیں آپ کو دونوں ششدر کر دیں گے‘ آپ یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے سلطان نے اوپیرا ہاؤس زیادہ اچھا تعمیر کیا یا پھر جامع مسجد اور آپ سڑکیں بھی دیکھ لیں‘ سلطان نے صحرا کے اندر تک سڑکیں پہنچا دیں اور یہ سارے کام ایک ہی سلطان کے دور میں ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے سلطان نے یہ سب کیسے کیا؟ وہ ایک بادشاہ تھے اور بادشاہ عموماً عوام کو سوچنے‘ بولنے اور علم حاصل کرنے کا موقع نہیں دیتے‘ سلطان قابوس پچاس سال بادشاہ رہے اور انہوں نے بادشاہی کے باوجود اپنے لوگوں‘ اپنے معاشرے کو کھول دیا‘ کیوں اور کیسے؟یہ سوال بہت اہم ہے اور ہم جیسے لوگوں اور معاشروں کے لیے اس میں روشنی کی بے شمار قندیلیں چھپی ہیں‘ سلطان قابوس کا پہلا کارنامہ امن تھا‘ سلطان نے 1970ءمیں فیصلہ کیا تھا یہ اسلامی دنیا کے کسی تنازع کا حصہ بھی نہیں بنیں گے اور یہ کسی کے ساتھ جنگ بھی نہیں کریں گے چناں چہ اومان پچاس سال میں کسی عالمی یا اسلامی تنازع میں فریق نہیں بنا۔اس دوران ایران میں انقلاب آیا‘
افغان وار ہوئی‘ عراق اور ایران جنگ ہوئی‘ سنی اور شیعہ تنازع بنا‘ عرب ممالک میں ”انقلابی بہار“ آئی اور آخر میں یمن میں جنگ چھڑ گئی مگر اومان ہر معاملے میں نیوٹرل رہا‘ آپ سلطان قابوس کی ذہانت ملاحظہ کیجیے‘ اومان کی سرحدیں یمن‘ یو اے ای اور سعودی عرب سے ملتی ہیں‘ اومان کے تینوں ملکوں کے ساتھ سرحدی تنازعات بھی پیدا ہوئے لیکن سلطان قابوس نے لڑنے کی بجائے
یو اے ای کے شیخ زید بن سلطان النہیان کو دعوت دی‘ نقشہ ان کے سامنے رکھا اوران سے کہا آپ اس پر لکیر لگا دیں‘ ہم اس لکیر کو سرحد مان لیں گے لیکن ہم آپ کے ساتھ لڑیں گے نہیں۔شیخ زید نے نشان لگا دیا اور اومان نے اسے سرحد مان لیا‘تنازع ختم ہو گیا‘ یمن اور سعودی عرب کے ساتھ بھی سرحدی تنازعے اسی طرح سیٹل کیے گئے‘ سلطان کہتے تھے ”ہم ہمسایوں کے ساتھ لڑ کر امن سے نہیں رہ سکیں گے“
چناں چہ یہ بڑے سے بڑا ایشو بھی گفتگو کے ذریعے حل کرتے تھے‘ سلطان قابوس کے دور میں اومان نے خود جنگ کی اور نہ یہ کسی جنگ کا حصہ بنا‘ یہ ملک ہر دور میں ثالث رہا‘ یہ متحارب گروپوں کے درمیان صلح کراتا رہا‘یہ اس وقت بھی یمن کے دو اطراف کے زخمیوں کا ایک ہی ہسپتال میں علاج کرتے ہیں۔ یہ میرٹ پر بھی بے انتہا یقین رکھتے تھے‘ اومان میں پچھلے پچاس برسوں میں تمام عہدوں پر
صرف اور صرف اہل لوگوں کو تعینات کیا گیا اور وہ اہل لوگ خواہ سلطان کے دشمن ہی کیوں نہ ہوں انہیں کوئی نوکری اور ترقی سے نہیں روک سکتا تھا‘ تیسرا یہ انصاف اور عدل پر بھی کمپرومائز نہیں کرتے تھے‘ یہ ہو نہیں سکتا تھا ملک کا کوئی طاقت ور شخص کسی کم زور کا حق مار لے اور ریاست اس پر خاموش رہے‘ سلطان نے اربوں روپے کے پلازے اور زمینیں حق داروں کو واپس کرائیں اور اس عمل میں کسی کا دباؤ قبول نہیں کیا۔