کراچی(این این آئی) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت ٹک ٹاک سے ہی بنی ہے اور یہ ٹک ٹاک سے ہی گر جائے گی۔وفاقی وزراء کا کام روزانہ ایک ٹک ٹاک بنانا اور شام کو 50 ہزار لائیک ہونے پر جشن منانا ہے۔ شہر یار آفریدی کو فوٹیج اور ویڈیو کا اچھی طرح معلوم ہے ان سے ہی پوچھا جائے کہ حریم اور ترمیم میں کیا فرق ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کابینہ کا حجم چھوٹا ہوا ہے، اس لئے وزیر اعلیٰ کے پاس متعدد وزارتوں کے قلمدان ہیں۔
ایک سے ڈیڑھ ہزار افراد پر اعتراض کو جواز بنا کر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آٹھ لاکھ افراد پر پابندی لگانا کسی صورت درست نہیں ہے۔ اس کی آڑ میں پی ٹی آئی کو سیاسی مقاصد کسی صورت حاصل نہیں ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ، حکومت سندھ کے تحت خاتون پاکستان کالج میں منعقدہ اکیڈمک پلان اور صوبے بھر کے کالجز میں اعلیٰ نمبرز حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات اور ٹاپ 10 اکالجز کے پرنسپلز کو شیلڈ اور اعزاز دینے کی تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سیکرٹری کالجز رفیق برڑو، ایڈیشنل سیکرٹری طاہر سانگی، ڈپٹی سیکرٹری شعیب ملک، پرنسپل خاتون پاکستان کالج اور دیگر بھی موجود تھے۔ صوبائی وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد کے 11 فیصد ہی کابینہ کا حصہ بنتے ہیں اور صوبہ سندھ میں یہ تعداد 18 وزراء کی بنتی ہے جبکہ پنجاب میں ارکان کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث وہاں وزراء کی تعداد زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں وزراء کے پاس ایک سے زیادہ قلمدان کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس بھی مختلف محکموں کے قلمدان ہیں۔سعید غنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ماضی میں بہت سے گاؤں اور علاقوں میں جہاں ایک یا دو اسکولوں کی ضرورت تھی، اس کی جگہ پر 50, 50 اسکولز بنا دئیے گئے اور ان اسکولوں میں انرولمنٹ ایک بھی نہیں تھے،
جبکہ ان اسکولوں کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا لیکن پیپلز پارٹی نے حکومت میں آکر ایسے تمام اسکولوں کو بند کروایا اور ضرورت کے مطابق اسکولز جہاں انرولمنٹ تھی ان کو جاری رکھا اور اس کے بعد ایسے اسکولوں کو میڈیا پر کبھی جانوروں کے بندھے ہونے یا کبھی انہیں اوطاق ہونے کا کہا گیا۔سعید غنی نے کہا کہ حکومت اپنا بجٹ ایسے اسکولوں پر ہی خرچ کررہی ہے جہاں طلبہ اور طالبات ہیں اور ہم بند اسکولوں پر کوئی خرچ نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسکولوں اور کالجز میں اساتذہ کی کمی کے بھی مسائل ہیں
کیونکہ ہم پبلک سروس کمیشن کے تحت اساتذہ کو بھرتی کرتے ہیں اور وہ اساتذہ جب 6 ماہ سے ایک سال میں بھرتی ہوتے ہیں تو انہیں اور کوئی اچھی آفر نظر آتی ہیں تو وہ وہاں چلیں جاتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ہم نے صوبے بھر کی اسکولوں کا سروے کیا تو اس میں 4500 اسکولز ایسے تھے جہاں انرولمنٹ زیادہ ہے اور سہولیات کم تھی، جس کے بعد اس پر کام شروع کردیا گیا ہے اور ان میں سے بیشتر اسکولز کو تمام سہولیات کی فراہمی کردی گئی ہے جبکہ رواں مالی سال میں بھی ان اسکولوں پر کام جاری ہے،
لیکن ہمیں مشکلات اس وقت درپیش آتی ہیں جب ہم بجٹ تو بنا لیتے ہیں لیکن وفاق سے ہمیں جو بجٹ ملنا ہوتا ہے وہ نہیں ملتا اور گذشتہ مالی سال میں بھی ایسا ہی ہوا اور اس سال بھی ایسا لگتا ہے کہ جو ہدف ہمیں وفاقی حکومت سے ملنا ہے وہ نہیں مل پائے گا اور اس کے باعث ترقیاتی کام متاثر ہوتے ہیں۔ ایک اور سوال پر سعید غنی نے کہا کہ یہ حکومت ہی ٹک ٹاک حکومت ہے، انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ان نااہل اور نالائق وزراء کا مقصد حیات ہی ایک ہے کہ روزانہ ایک ویڈیو بناؤ، اس کو وائرل کروں اور شام کو اس پر 50 ہزار لائیک آجائیں تو پارٹی منائیں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ خیر کرے ابھی تو کچھ وزراء کی ٹک ٹاک آئی ہیں آگے دیکھتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ یہ ”ٹک ٹاک حکومت ہے، جو ٹک ٹاک سے بنی ہے اور ٹک ٹاک سے ہی گرے گی”۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ حریم اور ترمیم کا فرق شہریار آفریدی سے پوچھا جائے کیونکہ انہوں نے ہی کہا ہے کہ فوٹیج اور ویڈیو میں فرق ہے اور اس سے بہتر حریم اور ترمیم کا فرق کوئی اور نہیں بتا سکتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے اگر ایک ہزار یا 5 ہزار یا دس ہزار لوگ ایسے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہیں اور فائدہ اٹھا رہے ہیں تو اس کی وجہ سے آٹھ لاکھ خاندانوں کو اس سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ جو مستحق نہیں ہیں ان کو اس فہرست سے نکالنے کے لئے تدابیر کی جائیں اور ایسے اقدامات ہونے چاہئے کہ وہ اس طرح نہ کرسکیں لیکن اس کو آڑ بنا کر پی ٹی آئی اپنے سیاسی مقاصد کو کسی صورت حاصل نہیں ہونے چاہیے۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ صوبہ سندھ میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لئے موجودہ حکومت تمام اقدامات کررہی ہے اور آج جس طرح صوبے بھر کے دوز دراز علاقوں اور بالخصوص چھوٹے گاؤں اور اضلاع کے کالجز کے جو نتائج بتائیں جارہے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا تعلیم کا معیار بلند ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کسی کو کتا کاٹے تو میڈیا پر خبر بن جاتی ہے لیکن جس کالج کا نتیجہ 100 فیصد ہو تو اس پر کوئی میڈیا بات نہیں کرتا۔ سعید غنی نے کہا کہ اساتذہ کے مسائل اور ان جو بھی مطالبات ہیں اس کو ہم پورا کررہے ہیں لیکن اساتذہ کو بھی اپنے فرائض ایمانداری سے نبھانا ہونا، انہوں نے کہا کہ اگر اساتذہ اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر پوری کریں تو انہیں کسی احتجاج کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور ان کے تمام جائز مطالبات خود بخود پورے ہوجائیں گے۔