اسلام آباد( آن لائن )موسموں میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں سے نوح ا نسانی کی بقاکے لیے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے. جنگلات میں کمیزہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافے اور سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی سطح کسی اٹیم بم سے کم نہیں ہیں،
دوسری جانب اربنائزیشن سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی زرعی ممالک خوراک کے حوالے سے اپنی خودکفالت کھوچکے ہیں اور فوڈسیکورٹی کے حوالے سے ہائی رسک ممالک کی فہرست میں آچکے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ پچھلے30سالوں میں دیہا توں سے بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان ہے .ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہرسال 35ہزارایکٹرسے زائدزیرکاشت رقبہ غیرآباد ہورہا ہے اور حکومت کی ٹھو س اور دیرپا پالیسیاں نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ دیہی علاقوں کو چھوڑ کر بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں جبکہ بڑے شہروں کے نواحی دیہات ان شہروں کے پھیلا کی نذرہوچکے ہیں.عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا25فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا ضروری ہے جبکہ پاکستان میں یہ 2فیصد سے بھی کم ہے. پاکستان کے شہریوں کو پچھلے کچھ سالوں سے سموگ کاسامنا ہے جس کے لیے مختلف عذرتراشے جارہے ہیں مگر ماہرین جانتے ہیں کہ جن عوامل کو بنیاد بنا کرپیش کیا جارہا ہے ان سے کہیں زیادہ عمل دخل شہروں میں بے تحاشا گاڑیوں کا ہے پاکستانیوں میں گاڑیوں میں جو تیل استعمال کیا جاتا ہے وہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں انتہائی غیرمعیاری ہے ۔
جس میں سلفر کی مقدارعالمی معیارات سے کہیں زیادہ ہے.ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف تیزی سے گلیشیئرپگل رہے ہیں تو دوسری جانب بارشوں میں کمی آنے سے زیرزمین پانی کا لیول خطرناک حد تک نیچے جارہا ہے اور لاہور جیسے بڑے شہر پر پانی کی شدید قلت کے خطرات منڈلا رہے ہیں بعض ماہرین کے نزدیک تو آنے والے پانچ سے د س سالوں میں لاہور میں زیرزمین پانی ختم ہوجائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت فوری طور پر بڑے شہروں میں کم سے کم د س سال تک ہر طرح کی نئی تعمیرات پر پابندی عائد کرکے خالی زمینوں پر شجرکاری کردے دوسرا شہروں سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے دیہات اور قصبوں میں دیہی زندگی کو فروغ دینے کے لیے شہریوں کو ترغیبات دے جن میں ٹیکسوں میں چھوٹسرمایہ کاروں کے لیے خصوصی سہولیات چھوٹے کاشتکاروں کے لیے زراعت کے ساتھ ساتھ باغبانی ماہی پروریمال مویشیوں کے لیے شفاخانوں کا قیام ہربڑے دیہات یا قصبے میں زرعی یونیورسٹی کے تحت زرعی سکولوں وکالجوں کا قیام شامل ہیں.
ماہرین کے مطابق حکومت ہرڈویژنل ہیڈکواٹرزمیں موجود ہسپتالوں کواپ گریڈ اور تمام یونیورسٹیوں کے ڈویژنل ہیڈکواٹرکی سطح پر کیمپس قائم کرکے بڑے شہروں سے آبادی کا 30سے40فیصد تک بوجھ کم کرسکتی ہے۔وسائل کی فراہمی کے لیے ہرسال صوبائی بجٹ میں دو ڈویژنل ہیڈکواٹرزکواپ گریڈ کرنے کا ہدف رکھ کر شہروں پر خرچ ہونے والے بجٹ کا نصف اس منصوبے پر لگادے تو آنے والے چند سالوں کے اندر پنجاب کے تمام9ڈویژنوں کو اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے اور یہی ماڈل دوسرے صوبوں میں لاگو کیا جاسکتا ہے.اس اقدام سے نہ صرف مقامی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا بلکہ بیروزگاری میں بھی نمایاں کمی آئے گی. دیہی علاقوں میں برادریوں کی اجارہ داریوں کے خاتمے کے لیے پنچائیت سسٹم کو بحال کرکے اس میں علاقے کی تمام برادریوں کونمائندگی دے کر امن وامان اور مقدمہ بازی کا مسلہ حل کیا جاسکتا ہے۔