اسلام آباد (مانیٹرنگ دیسک)سینئر صحافی و کالم نگار سلیم صافی اپنے کالم ’’نواز شریف کی ڈیلنگ اور مولانا کا مارچ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔ ظاہر ہے کہ بھائی کی حیثیت سے میاں شہباز شریف اور بیٹی کی حیثیت سے مریم نواز بھی چاہتی ہیں کہ نواز شریف کی زندگی بچ جائے اور ان کا بہتر سے بہتر علاج ہو لیکن اس حوالے سے ڈیل کی باتیں سراسر جھوٹ ہیں کیونکہ اب کی بار ان سے زیادہ حکومت اور اس کے پشتی بان میاں صاحب کو
جلدازجلد بیرون ملک بھیجنا چاہتے ہیں اور ان کو راضی کرنے کے لئے ان کے ساتھ مریم نواز شریف کو بھی باہر بھیجنے کو تیار ہیں۔ حکومت یوں بھی پھنس گئی ہے کہ اب اگر حکومت خود میاں صاحب کو باہر بھجواتی ہے تو اس کے سارے بیانیے کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے اور اگر ان کو یہاں رکھتی ہے تو اس سے بھی بڑا رسک لیتی ہے۔جہاں تک مولانا کا تعلق ہے تو حیرت انگیز طور پر مولانا نے مارچ کے لئے ناقابلِ یقین حد تک اور کئی ماہ پر محیط تیاری کی لیکن حکومت نے ان کے معاملے کو سنجیدہ لیا اور نہ سیاسی حل نکالنے کی کوئی کوشش کی۔ جب انہوں نے مارچ کا اعلان کیا تب بھی حکمران اس طرف متوجہ نہ ہوئے۔ وہاں یہ سوچ تھی کہ جس طرح الیکشن کروایا گیا اور چیئرمین سینیٹ کے معاملات کا ان کو تکلیف دئیے بغیر حل نکالا گیا، اسی طرح مولانا سے بھی نمٹ لیا جائے گا لیکن جب آخری وقت پر یہ پتا چلا کہ مولانا پر تو روایتی جادو نہیں چل رہا تو حکومت حواس باختہ ہوگئی اور مارچ کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم اس دوران یہ انکشاف ہوا کہ مولانا نے پلان بی کے تحت زیادہ تیاری حکومت کی طرف سے روکے جانے کی حالت کے لئے کی ہے اور اس صورت میں پورے پاکستان کے بند ہونے اور خونریزی کا خطرہ ہے چنانچہ کمیٹی بنا کر مولانا کو اسلام آباد آنے دینے کا فیصلہ ہوا۔ مولانا نے بھی اپنے کارڈز سینے سے لگا رکھے ہیں اور حکومت نے بھی۔ حکومت نے جو تیاری کی ہے وہ صرف اور صرف انتظامی حوالوں سے کی ہے اور پورے شہر کو کنٹینروں سے بھر دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر لوگ مولانا کی توقع کے مطابق اور حکمرانوں کی توقع کے خلاف زیادہ آگئے تو پھر کیا ہوگا؟