سکھر(این این آئی)احتساب عدالت نے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 6 روز کی توسیع کرتے ہوئے نیب کے حوالے کر دیا ۔ منگل کو سکھر کی احتساب عدالت میں خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت ہوئی نیب حکام نے پی پی رہنما کو عدالت کے روبرو پیش کیا۔
اس موقع پر نوید قمر ، فرحت اللہ بابر، مولا بخش چانڈیو، امتیاز شیخ ، منظور وسان ، نفیسہ شاہ اور اویس قادر شاہ بھی موجود تھے۔دورانِ سماعت خورشید شاہ اور جج کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں پی پی رہنما نے کہا کہ اگر میں باہر ہوتا تو نیب کو ہر ثبوت فراہم کرسکتا تھا، لوگ ہم کو ڈر کر ووٹ نہیں دیتے بلکہ پیار کرتے ہیں۔جج نے خورشید شاہ سے مکالمہ کیا کہ شاہ صاحب آپ کو ضمانت دینے کا اختیار میرے پاس نہیں ہے، ضمانت اور رہائی کیلئے آپ کو پراپر فورم پر جانا ہوگا، اس پر خورشید شاہ نے کہا کہ جج صاحب آپ مجھے تین ماہ کے ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیں، میں عزت دار سیاستدان ہوں اور مجھے اس سب سے تکلیف ہورہی ہے، میں نے اس سال 27 لاکھ ٹیکس دیا اور بچوں نے الگ ٹیکس دیا۔پی پی رہنما نے عدالت کو بتایا کہ مجھے دل کا عارضہ لاحق ہے اور آکسیجن کا بھی مسئلہ ہے لہٰذا رات بھی میری طبیعت خراب ہوگئی تھی، اس وقت یہ نیب والے میرے ساتھ تھے لیکن میں نے کسی کو نہیں کہا کہ میری طبعیت خراب ہوئی بلکہ سپاہی نے خود دیکھا۔پی پی رہنما کا عدالت میں کہنا تھا کہ آج میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں،کیوں کہ مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے، اس پر جج نے مسکرا کر خورشید شاہ سے مکالمہ کیا کہ شاہ صاحب آپ سے ایک غلطی ہوگئی کہ آپ نے نیب قانون ختم نہیں کیا۔
علاوہ ازیں دورانِ سماعت خورشید شاہ کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ آپ کے حکم کے باوجود خورشید شاہ کو چیک اپ کیلئے نہیں بھیجا گیا جس پر نیب وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا چیک اپ نیب کے ڈاکٹرز روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں اور ہمارے ڈاکٹرز کے مطابق خورشید شاہ کو باہر علاج کی ابھی ضرورت نہیں ہے۔نیب وکیل نے عدالت کو بتایاکہ خورشید شاہ سے آمدن کے ذرائع پوچھتے ہیں تو کہتے ہیں فیملی سے پوچھ لو۔
ان کے ایک اکاؤنٹ میں 30کروڑ روپے کہاں سے آئے، جب اس بارے میں ان سے پوچھتے ہیں تو وہ کوئی جواب نہیں دیتے جب کہ ان کے اکاؤنٹ میں اس وقت تک 28 کروڑ روپے کی ٹرانزکشن ہوئی ہے لیکن خورشید شاہ نے اس رقم کے بارے میں نیب کو اب تک کو کوئی ثبوت نہیں دیا۔نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایاکہ خورشید شاہ کے پاس 25 کروڑ روپے کا گھر ہے، اس کے علاوہ ان کی سکھر اور کراچی میں کروڑوں روپے کی بے نامی جائیداد ہیں۔
نیب کے وکیل کے دلائل پر جج نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کے پاس وکیل بننے سے قبل کتنے اثاثے تھے آپ کو یاد ہے؟ اس پر وکیل نے بتایا کہ جی میں بتا سکتا ہوں میرے کتنے اثاثے تھے، میرا کیا کاروبار ہے۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ خورشید شاہ کے پاس پبلک پراپرٹی ہے لہٰذا ان کو جواب دینا ہوگا، ان کے تین بینک اکاؤنٹ مل گئے ہیں جس میں 28 کروڑ ہیں۔نیب کی جانب سے پی پی رہنما کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 15 روز کی توسیع کی استدعا کی گئی جس پر جج نے کہا کہ 90 دن کا بھی ریمانڈ دیدوں تو بھی آپ آخر میں صرف الزامات کی فہرست لائیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے خورشید شاہ کے جسمانی ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع کردی اور نیب کو انہیں 21 اکتوبر کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی۔واضح رہے کہ نیب نے پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں 18 ستمبر کو راولپنڈی سے گرفتار کیا تھا۔عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم احتساب سے نہیں گھبراتے اور ڈرتے، ہم ہمیشہ انصاف کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔
خورشید شاہ ایک نیک انسان ہیں، اگر خورشید شاہ ڈرتے یا مجرم ہوتے تو پہلے ہی ضمانت کراتے مگر نہیں انہوں نے خود کو انصاف کے لیے پیش کیا۔ آصف علی زرداری، فریال ٹالپر اور خورشید شاہ کے ساتھ انتقامی رویہ ہے جوکہ ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کا انتقامی رویہ ہمیں ٹھنڈا نہیں بلکہ بھڑکا رہا ہے۔مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم پاکستان کو چلانا چاہتے ہیں، ہم اس ملک کی سالمیت چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ آپ لوگ تو معصوم خواتین تک کو نہیں بخشتے یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا خون بہایا گیا۔ عوام خود ہی فیصلہ کرے کہ وہ بہادر اور نڈر نوجوان لیڈر بلاول بھٹو کا ساتھ دیگی یا ایک سلیکٹڈ کا۔