قرضے دو گنا بڑھ جانے پر حکومت کا اسٹیٹ بینک سے قرض نہ لینے کا فیصلہ

23  جون‬‮  2019

اسلام آباد(آن لائن)حکومت نے اعلان کیا ہے کہ قرض دو گناہ بڑھ جانے کی وجہ سے آئندہ مالی سال کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے قرض نہیں لیا جائے گا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق رواں مالی سال کے دوران 14 جون تک حکومت نے مرکزی بینک نے 27 کھرب روپے کے قرضے لیے لیکن گذشتہ برس یہ قرضے صرف 14 کھرب 30 ارب روپے تک لیے گئے تھے۔

رواں مالی سال کے دوران حکومت  کی ٹیکس وصولی میں واضح کمی کی وجہ سے حکومت، مرکزی بینک سے بڑی تعداد میں قرضے لینے پر مجبور ہوئی تاہم آئندہ برس قرضے نہ لینے کا فیصلہ موجود صورتحال کا عکاس نہیں۔حکومت نے مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں آمدن کو 14 کھرب روپے تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ اور سبسڈیز میں کمی شامل ہے۔دریں اثنا حکومت کی مقررہ وقت پر قرض کی ادائیگی 8 سو 59 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جو گذشتہ برس کے 2 سو 47 ارب روپے کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہے۔مالیاتی سیکٹر میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کی غیر حاضری کے بعد حکومت اپنی مالیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے کمرشل بینکوں کو دیکھے گا۔کمرشل بینکوں کی جانب سے حکومت کے لیے فنڈ کے بڑے پیمانے پر اجرا سے پرائیویٹ سیکٹر متاثر ہوگا جس کا مجموعی طور پر اثر معاشی سرگرمی پر پڑے گا۔تاہم آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے مالیاتی پروگرام کی منظوری کے بعد ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے دیگر دوطرفہ ذرائع سے بھی پاکستان کے لیے فنڈ کا اجرا شروع ہوجائے گا جس کی مدد سے حکومت کا اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ دیگر کمرشل بینکوں پر بھی انحصار کم ہوجائے گا۔واضح رہے کہ کمرشل بینک پہلے ہی حکومت کے لیے 52 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں جن میں ٹریڑری بلز کے لیے 31 کھرب 22 ارب جبکہ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) میں 20 کھرب 77 ارب کی سرمایہ کاری شامل ہیں۔

دوسری جانب دیگر مالیاتی ادارے، جن کا بینک سے کوئی تعلق نہیں، وہ بھی پی آئی بیز میں 13 کھرب 64 ارب روپے جبکہ 6 سو 78 ارب روپے ٹی بلز میں سرمایہ کاری کر چکے ہیں جس کے ساتھ نجی شعبے سے سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 73 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔رواں برس اپریل تک حکومت کا مجموعی ملکی قرضہ ایک سو 85 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے لیکن مالیاتی شعبے کے ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کو طویل مدتی پی آئی بیز کے اجرا کو دکھنا ہوگا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی اپنے دور اقتدار کے آغاز میں زیادہ شرح سود کے ساتھ پی آئی بیز جاری کیے تھے تاہم جب شرح سود کم ہوا تو یہ حکومت کا فیصلہ کافی نقصان درہ ثابت ہوا تھا۔بینکرز کی جانب سے حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے 40 ہزار روپے والے پرائز بانڈکی رجسٹریشن کروانے کے معاملے سے اس کے قرض لینے کے ذرائع پر فرق پڑے گا۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…