اسلام آباد ( آن لائن) چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں لہٰذا پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو بھی عدلیہ کی طرح انصاف کے شعبے میں بہتری کی ذمہ داری لینا ہوگی۔جو ڈیشل پالیسی کے تحت مقدمات کے لیے وقت مقرر کیا جائے گا، جس سے انصاف کا حصول آسان ہوگا۔
جوڈیشل پالیسی کو بہتر بنانے کے لیے سفارشات اور ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا، ہفتہ کے روز اسلام آباد میں فوری انصاف کی فراہمی سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وراثتی مقدمات کیلئے آسان نظام کو لایا جارہا ہے ،وراثتی سرٹیفکیٹ کے لیے عدالتوں کے بجائے نادرا کا نظام اپنانے کی ضرورت ہے، خاندانی اور وراثتی مسائل عدالت کے بجائے نادرا میں حل ہو سکیں گے ۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقدمے کے فیصلوں کے لیے وقت مقرر کیا جاتا ہے، امریکا اور برطانیہ کی سپریم کورٹ سال میں 100 مقدمات کے فیصلے کرتی ہیں، ہمارے ججز جتنا کام کر رہے ہیں اتنا دنیا میں کوئی نہیں کرتا،پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک سال میں 26 ہزار مقدمات کے فیصلے کیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ کے 3 ہزار ججز نے گزشتہ سال 34 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے، فوری اور سستے انصاف کی فراہمی عدلیہ کی ذمے داری ہے جبکہ ماڈل کورٹس کے قیام کا مقصد فوری اور سستے انصاف کی فراہمی تھا، ماڈل کورٹس مشن کے تحت قائم کی گئی تھیں، ماڈل کورٹس کا تجربہ آئین کے آرٹیکل 37 ڈی پر عملدرآمد کرنا ہے، ماڈل کورٹ کا مقصد التوا کا باعث بننے والی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
ماڈل کورٹس مشن کے تحت قائم کی گئیں تھیں، ان کے قیام کے پیچھے ایک جذبہ اور عزم تھا، ماڈل عدالتوں کا مقصد التوا کا باعث بننے والی رکاوٹوں کو دور کرنا اور عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ہے۔ ماڈل کورٹس کا تجربہ آئین کے آرٹیکل 37 ڈی پر عملدرآمد کرنا ہے کیونکہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں مقدمے کے فیصلے کے لیے وقت مقرر کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی جوڈیشل پالیسی کے تحت مقدمات کے لیے وقت مقرر کیا جائے گا، جس سے انصاف کا حصول آسان ہوگا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ مقدمات کا وقت مقرر کرنے سے انصاف کا حصول آسان ہوگا، کسی وجہ سے وکیل کے پیش نہ ہونے پر جونیئر کو مقرر کیا جائے گا، مقدمے میں کسی وجہ سے استغاثہ کے پیش نہ ہونے پر متبادل انتظام کیا جائے گا، کیمیکل ایگزامینر اور فرانزک اتھارٹیز کی رپورٹس کو مقررہ مدت پرپیش کرنے کویقینی بنانا ہوگا۔ان کاکہنا تھاکہ عدالتی قوانین واضح ہیں بس انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
انسداد دہشتگردی ایکٹ سمجھنے کے لیے قانون میں تعارف موجود ہے، قوانین میں ابہام دور کرنے کے لیے اٹارنی جنرل سے رائے مانگی جاتی ہے، ملکی قوانین میں انسانی حقوق کو مد نظر رکھاجاتا ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ جج بنا تو پہلے دن سے ہی مشن تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلے کیے جائیں، ماضی میں فیصلوں میں تاخیر کم کرنے کے لئے کئی تجربات کیے گئے، کبھی قانون میں ترمیم تو کبھی ڈو مور کی تجویز دی گئی۔
ہمارے ججز جتنا کام کر رہے ہیں اتنا دنیا میں کوئی نہیں کرتا ،پاکستان کی عدلیہ کے 3 ہزار ججز نے گزشتہ سال 34 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے، ججز کو اس سے زیادہ ڈو مور کا نہیں کہہ سکتے، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقدمے کے فیصلوں کے لیے وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں، جوڈیشل پالیسی بہتر بنانے کے لیے سفارشات اور ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس میں پولیس کو مقدمے کی فوری تحقیقات کرکے چالان پیش کرنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو لانے والی پولیس وینز کا باقاعدہ انتظام کرنا چاہیے، ملزمان کی عدالت میں حاضری یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے فوری انصاف کی فراہمی پر توجہ نہیں دی گئی، تاہم اب مقدمات کا التوا ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں، جب سے میں جج بنا ہوں میرا مقصد فوری انصاف کی فراہمی رہا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوری انصاف کے لیے مقدمات کی رپورٹس کو پیش کرنا ضروری ہے جبکہ 2 ہفتے میں تفتیش مکمل کرکے چالان جمع کروانا لازمی ہے، کسی وجہ سے وکیل کے پیش نہ ہونے پر جونیئر کو مقرر کیا جائے گا جبکہ مقدمے میں کسی وجہ سے استغاثہ کے پیش نہ ہونے پر متبادل کا انتظام کیا جائے گا۔ مقدمات کی دستاویزات کے لیے مختلف اداروں کو جگہ جگہ فیس دینی پڑتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی قوانین میں انسانی حقوق کو مد نظر رکھاجاتاہے، عدالتی قوانین واضح ہیں، انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے، انسداد دہشت گردی ایکٹ سمجھنے کے لیے قانون میں تعارف موجود ہے جبکہ قوانین میں ابہام دور کرنے کے اٹارنی جنرل سے رائی مانگی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے ماڈل کورٹس میں عدالتی عمل تیز کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ متازع معاملات اور وراثتی مقدمات کے لیے بھی نظام کو آسان بنایا جارہا ہے،وراثتی سرٹیفکیٹ کے لیے عدالتوں کے بجائے نادرا کا نظام اپنانے کی ضرورت ہے، خاندانی اور وراثتی مسائل عدالت کے بجائے نادرا میں حل ہو سکیں گے ۔