لاہور ( این این آئی) لاہور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف و مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کی درخواستوں پر بینچ کی تبدیلی کے لئے قومی احتساب بیورو (نیب )کی درخواست مسترد کر دی کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب پر پہلے بڑے الزامات لگ رہے ہیں، کیا اب نیب اپنی مرض کے بنچ بنوائے گا؟،عدالت عالیہ میں ضمانت کی درخواست پر نیب اور شہباز شریف کے وکلاءنے آشیانہ کیس میں جزوی طور پر دلائل مکمل کر لئے،
عدالت نے رمضان شوگر مل کیس میں شہباز شریف کے وکلاءکو دلائل کے لیے آج (منگل ) طلب کر لیا۔ہائیکورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے شہباز شریف کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔اس موق پر مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر پرویز ملک ، جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر ، رانا محمد اقبال خاں سمیت دیگر لیگی رہنما بھی موجود تھے ۔ نیب وکیل اکرم قریشی نے اپنے دلائل میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ بنچ تبدیل کروانے کے لیے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو درخواست دی تھی مگر چیف جسٹس نے بنچ تبدیل کرنے کی درخواست مسترد کر دی ۔جسٹس ملک شہزاد نے کہا کہ بنچ تبدیل کروانا آپ کا لیگل رائٹ ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔نیب وکیل نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس اختیار ہے کہ بنچ تبدیل کرسکتا ہے، اگر جیل اور ہسپتال میں علاج نا ممکن ہے تو بیماری کی وجہ سے ضمانت دی جاسکتی ہے مگر ہم نے شہباز شریف کا ریمانڈ لیا گیا ،ریمانڈکے دروان ہی اسلام آباد میں میٹنگز اٹینڈ کر رہے ہیں اور انہیں علاج کی سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں ۔نیب وکیل نے بتایا کہ 2012ءمیں شہباز شریف نے لطیف اینڈ سنز کو ٹینڈرز دیئے ، 2013میں پی ایل ڈی سی اور لطیف سنز کے درمیان معاہدہ ہوا، لطیف اینڈ سنز کو کام جاری کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے گئے ،شہباز شریف نے لطیف اینڈ سنز کے کام مداخلت کرنا شروع کر دی، شہباز شریف نے شکایات بغیر ہی ٹینڈر پراسس پر
اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دے دی، انکوائری کمیٹی نے رپورٹ ٹینڈر پپرا رولز کے مطابق قرار دیا، شہباز شریف اور فواد حسن ڈرانا دھمکانا شروع کر دیاجس کے بعد شہباز شریف نے لطیف اینڈ سنز کا ٹینڈر منسوخ کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں کہ شہباز شریف کے خلاف بیان کس نے دیا اور انکوائریاں کس تاریخ کو شروع کی گئیں۔جس پر نیب وکیل نے بتایا کہ شہباز شریف کے خلاف نیب کو درخواستیں وصول ہوئیں اور انکے خلاف انکوائریاں 2018ءمیں شروع کی گئیں۔
عدالت نے استفسار کہا کہ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے اپنے بیان میں اعتراف کیا ہے کہ کنٹریکٹر کے ساتھ اس کی ملاقات ہوئی؟،نیب نے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے خلاف کیا کارروائی کی۔نیب وکیل نے بتایا کہ پروجیکٹ ڈائریکٹر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔نیب وکیل نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے غیر قانونی طور پر بورڈ آف ڈیریکٹر کے اختیارات استعمال کیے۔عدالت نے کہا کہ بتایا جائے کہ 4 گواہان میں کس نے شہباز کے خلاف بیان دیا ہے۔نیب وکیل نے بتایا کہ
شیخ علاﺅالدین نے شہباز شریف کے خلاف بیان دیا ہےجبکہ پبلک سیکٹر کمپنیوں میں خواجہ سعد رفیق کی آشیانہ سکیم بھی شامل ہے۔جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا کہ بتایا جائے کہ خواجہ سعد رفیق اور اس کا بھائی کس کمپنی کے بورڈ آف ٹریکٹر میں شامل ہے۔ نیب وکیل نے بتایا کہ خواجہ سعد رفیق اور ان کا بھائی کسی بھی کمپنی کے بورڈ آف ڈیریکٹر میں شامل نہیں تھا۔نیب وکیل نے بتایا کہ بسم اللہ ڈویلپرز کو 13 ارب روپے دیئے گئے ،بسم اللہ ڈویلپرز کے دو ڈاریکٹر قیصر امین بٹ اور
ندیم ضیا ہیں ۔عدالت نے استفسار کیا کہ قیصر امین بٹ اور ندیم ضیاءکا شہباز شریف سے کیا تعلق ہے ؟۔نیب وکیل اکرم قریشی نے بتایا کہ دونوں کا شہباز شریف سے سیاسی تعلق ہے۔جس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہاکہ دونوں ملزمان میں سے صرف ایک (ق) لیگ کا ایم پی اے بنا، ان سے سیاسی تعلق بھی کوئی نہیں ۔نیب اور شہباز شریف کے وکلاءنے آشیانہ کیس میں جزوی طور پر دلائل مکمل کر لئے۔ جس پر فاضل عدالت نے رمضان شوگر مل کیس میں شہباز شریف کے وکلاءکو دلائل کے لیے
آج (منگل ) طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔قبل ازیں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کی درخواستوں پر سماعت کرنیوالے بنچ کیخلاف نیب کے اعتراض پر سماعت کی۔نیب کے وکیل اکرم قریشی نے موقف اختیار کیا کہ شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر جسٹس ملک شہزاد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے زبیر کیس کی روشنی میں موجودہ بنچ شہباز شریف کی
درخواست ضمانت پر سماعت نہیں کر سکتا۔نیب وکیل نے بتایا کہ جسٹس علی باقر نجفی سربراہی میں 2رکنی اس کیس میں شریک ملزموں کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر چکا ہے، معزز عدالت سے استدعا ہے کہ شہباز شریف کی درخواست ضمانت جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل بینچ کو بھجوائی جائے ۔جس پر چیف جسٹس سردار شمیم احمد خان نے باور کرایا کہ روز روز نئے بنچ نہیں بنائے جاسکتے۔نیب کے وکیل نے کہا کہ نیب کو دو رکنی بنچ پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،بات صرف عدالتی فیصلے کی ہے جس کے تحت وہی بنچ سماعت کرے گا جو پہلے سماعت کر چکا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب پر پہلے بڑے الزامات لگ رہے ہیں، کیا اب نیب اپنی مرض کے بنچ بنوائے گا؟،میں معذرت خواہ ہوں مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیااور بعد ازاح فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے نیب کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر مسترد کردی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ شہباز شریف درخواست ضمانت پر سماعت موجودہ بینچ ہی کرے گا۔یاد رہے کہ نیب نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو آشیانہ اقبال ہاﺅسنگ کیس میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم میں گرفتار کیا تھا اور وہ عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔