اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نجی اور سرکاری شعبوں کے لیے230ارب روپے کی سبسڈی ،جبکہ حج کے لیے کوئی سبسڈی نہیں ہے۔وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کا کہنا ہے کہ حکومت صنعتی شعبے کو سبسڈی نہیں دے گی تو اس سے عوام ہی متاثر ہوگی۔روزنامہ جنگ کے مطابق نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ حج سبسڈی پر ادا نہیں کیا جاتا۔
حج صرف ان لوگوں پر فرض ہے جو مالی استطاعت رکھتے ہیں اور ان لوگوں پر حج فرض نہیں ہے جو مالی استطاعت نہیں رکھتے۔ان کا کہنا تھا کہ حج سبسڈی کا موازنہ دیگر شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی سے کرنا درست نہیں ہے۔حج کا فلسفہ دیگر مذہبی عبادات سے مختلف ہے۔حکومت دیگر شعبوں کو سبسڈی اس لیے دے رہی ہے تاکہ ملک کی معیشت میں بہتری آئے۔ اگر حکومت صنعتی شعبے کو سبسڈی نہیں دے گی تو اس سے عوام ہی متاثر ہوگی۔ان کا کہناتھا کہ حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز اور دیگر شعبوں کی سبسڈی میں اس لیے اضافہ کیا ہے تاکہ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔ان سبسڈیوں کا براہ راست تعلق عام عوام سے ہے ، جب کہ حج سبسڈی کا تعلق عام عوام سے نہیں ہے۔حج صرف مالی طور پر مستحکم افراد پر فرض ہے۔ وفاقی حکومت نجی اور سرکاری شعبوں کو سالانہ تقریباً230ارب روپے سبسڈی کی مد میں ادا کررہی ہے، لیکن اس نے حج کی مد میں صرف 4اعشاریہ5ارب روپے کی مالی معاونت واپس لے لی ہے۔اس کے علاوہ حکومت 55ارب روپے کی سبسڈی اور گرانٹس پاکستان ریلوے، گلگت بلتستان اور دیگر شعبوں کو گندم سبسڈی کی مد میں دے رہی ہے۔کل ملا کر حکومت مختلف سرکاری محکموں، اداروں اور نجی شعبوں میں 230ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔
گزشتہ حکومت نے حج آپریشنز کے دوران حاجیوں کی سہولت کے لیے 4اعشاریہ5ارب روپے کی سبسڈی دی تھی ، جسے گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی حکومت نے واپس لے لیا۔اس پر سیاسی جماعتوں اور عوام کی جانب سے اعتراض کیا جارہا ہے کہ آخر حکومت ایک مذہبی فریضے سے سبسڈی کیوں واپس لے رہی ہے ، جب کہ باقی دیگر شعبوں کو یہ سہولت فراہم کی جارہی ہے ، یہاں تک کے ارکان پارلیمنٹ کو سبسڈی پر کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام میں حج اس شخص پر فرض نہیں ہے جس صاحب استطاعت نہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت دیگر شعبوں کو مالی معاونت اس لیے فراہم کررہی ہے تاکہ صنعتوں کو فائدہ پہنچے اور ملک کی معیشت بہتر ہو۔ان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی ارکان پارلیمنٹ کو دی جانے والی سبسڈی کے خلاف ہیں اور حکومت کو فوری طور پر اسے واپس لینا چاہیئے۔
وفاقی بجٹ، 2018-19دستاویزات کے مطابق، حکومت نے مختلف نجی اور سرکاری شعبوں کے لیے سبسڈی کی مد میں تقریباً230ارب روپے مختص کیے ہیں۔وفاقی حکومت ایک بڑی رقم بجلی اور کھانے کی مد میں بطور سبسڈی فراہم کررہی ہے تاکہ عوام پر افراط زر کے اثرات کم کیے جاسکیں۔گزشتہ حکومت نے مالی سال 2017-18کے دوران مختلف شعبوں کو 147ا عشار یہ60ارب روپے سبسڈی کی مد میں فراہم کیے تھے۔
حالاںکہ بجٹ میں یہ سبسڈی 138اعشاریہ84ارب روپے رکھی گئی تھی لیکن بعد میں اس میں اضافہ کردیا گیا تھاکیوںکہ کے ای ایس سی اور کھاد کی مد میں سبسڈی میں اضافہ کردیا گیا تھا۔بجٹ دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے واپڈا/پیپکو کو فراہم کی جانے والی سبسڈی کی مد میں 134ارب روپے مختص کیے ، جس میں 105ارب روپے کا بین الڈسکوٹیرف فرق، 5ارب روپے کا ٹیرف فرق برائے زرعی ٹیوب ویلز ، بلوچستان، 12ارب روپے واپڈا/پیپکو کی فاٹا سے قابل وصولی لینے کے لیےاور 12ارب روپے کی سبسڈی واپڈا کو دی گئی۔