منگل‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پیٹرولیم مصنوعات پر 40 روپے فی لیٹر ٹیکس اور گیس کی قیمتوں میں10 سے143 فیصد اضافہ،عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیاگیا،بڑا قدم اُٹھالیاگیا

datetime 6  فروری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ نے پیٹرولیم مصنوعات پر 40 روپے فی لیٹر ٹیکس اور گیس کی قیمتوں میں10 سے143 فیصد اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے عام عوام پر ظلم و ژیادتی قرار دیدیا ، اوگرا کو گیس کی قیمتوں کاجائزہ لے کر رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی جبکہ چیئرمین کمیٹی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے ،

پاکستان میں ٹیکسوں کی بھر مار کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات پر عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا،عوام کا گیس کا بل 2 ہزار کی بجائے 40 سے 50 ہزار روپے آنا اضافی بوجھ اور جینے کا حق چھیننے کے برابر ہے لوگوں کی مشکلات میں ہوشربا اضافہ ہو چکاہے۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اوگرا کے کام کے طریقہ کار ، کارکردگی کے علاوہ وزارت پیٹرولیم سے جی آئی ڈی سی (گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سس)پر بریفنگ ، گیس لوڈشیڈنگ ، گیس کے نئے کنکشن پر حکومتی پالیسی اور اوگرا کے گیس کے حوالے سے شکایات سیل کی کارکردگی کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرپرسن اوگرا نے کمیٹی کو بتایا کہ اوگرا2002 میں قائم کیا گیا۔پیٹرولیم مصنوعات و گیس کی قیمتوں کیلئے نیٹ ورک اور دیگر کرائے شامل کر کے سمری وزارت پیٹرولیم کو بھیج جاتی ہے جو کیبنٹ میں منظوری کیلئے پیش کی جاتی ہے۔ ادارے کا ایک شکایات سیل بھی ہے جس میں لوگ اپنی شکایات تحریری طور پر پیش کرتے ہیں جن کا روزانہ کی بنیادوں پر جائزہ لیا جاتا ہے۔سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں دسمبر سے مارچ تک درجہ حرارت منفی سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور صوبے کی عوام کو ایک منٹ کیلئے بھی گیس فراہم نہیں کی جاتی لوگ سردی سے بچنے کیلئے قیمتی جنگلات کو کاٹ کر ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

کراچی میں بھی یہی صورتحال ہے بچے گیس نہ ہونے کی وجہ سے بغیر ناشتے کے سکول جاتے ہیں۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہاکہ حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے عام عوام جن کا گیس کا بل2 سے5 ہزار آتا تھا اب35 سے50 ہزار آنا شروع ہوگیا ہے اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری کوئی ادارہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ جس پر چیئرپرسن اوگرانے کمیٹی کو بتایا کہ پہلے گیس کے بل تین سیلبوں تک مقرر تھے اب 7سلیب کر دیئے گئے ہیں

پہلے سلیب میں 10 فیصد اضافہ ، دوسرے میں15، تیسرے میں20 اور چھٹے اور ساتویں میں143 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جو کل صارفین کا2 فیصد ہے اور بہت زیادہ گیس استعمال کرتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جن کے بل زیادہ آئے ہیں وہ 4 اقساط میں ادا کر سکتے ہیں۔جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2 سے5 ہزار روپے والا بل 35 سے50 ہزار کس طرح ہو سکتا ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں سالانہ 8 فیصد گیس کم ہو رہی ہے

جس کی وجہ سے شارٹ فعال کا سامنا بھی ہے۔ صوبہ سندھ سے کل 65 فیصد گیس نکلتی ہے ، بلوچستان سے 13 فیصد ، خیبر پختونخواہ سے 10 فیصد اور پنجاب سے 2 سے3 فیصد۔ صوبہ بلوچستان کو کل 2 فیصد گیس فراہم کی جارہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ سے 400 ملین کیوبک فٹ گیس نکلتی ہے جبکہ صوبے کی ضرورت 300 ملین کیوبک فٹ ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گھریلو صارفین کو گیس دینے میں پہلی ترجیح دی جاتی ہے پھر زیرو ریٹڈ صنعت اور پھر دیگر شعبوں کو فراہم کی جاتی ہے۔

جس پر قائمہ کمیٹی نے ہدایت کہ آئین کے مطابق جن صوبوں سے گیس نکلتی ہے پہلے ان صوبوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے پھر باقی صوبوں کو فراہم کی جائے۔ قائمہ کمیٹی کو جی آئی ڈی سی کے معاملے پر تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا کہ جنوری2011 میں ایکٹ ریگولیٹ ہوا۔ کچھ لوگوں نے جی آئی ڈی سی بھی ادا کرنا شروع کی اور یہ مسئلہ دو دفعہ عدالت میں چیلنج کیا گیا اور ابھی بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ڈی جی گیس نے کمیٹی کو بتایا کہ سی این جی سیکٹر نے 6 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔

قانون میں درج نہیں ہے کہ ادائیگی نہ کرنے والوں کے ساتھ کیا جائے۔معاملہ وزارت قانون کو بھیجا ہے جس نے تجویز دی کہ اسے ایکٹ میں شامل کرایا جائے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ 10 سے18 فیصد لیوی ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں انکشاف ہوا کہ ہائی اوکٹین کی قیمتیں کمپنیاں مقرر کرتی ہیں حکومت نہیں۔قائمہ کمیٹی کے ہائی اوکٹین پر اضافی ٹیکسوں کی بھر مار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے نا مناسب قرار دیا۔ چیئرپرسن اوگرا نے کمیٹی کو بتایا کہ جب بین الاقوامی سطح پر آئل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو حکومت ٹیکسز میں اضافہ کر دیتی ہیں اور جب قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو حکومت ٹیکسز کم کر دیتی ہے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نادرا کو تصدیق کیلئے غیر ملکیوں کے 350 کیسز بھیجے تھے جن کی ابھی تک رپورٹ فراہم نہیں کی گئی چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را سمیت افغان ایجنسیوں کے لوگوں کو نادرا سے شناختی کارڈ جاری کیے گئے تھے ان لوگوں کے پاسپورٹ پر بھارت اور افغانستان کے ویزے بھی لگے ہوئے ہیں۔نادرا نے کس قانون کے تحت ایسے لوگوں کو شناختی کارڈ جاری کیے ملوث لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز نجمہ حمید، روبینہ خالد ، نصیب اللہ بازئی ، ستارہ ایاز ، ڈاکٹر اسد اشرف ، ڈاکٹر اشوک کمار ، سیمی ایذی،ڈاکٹر سکندر میندرو اور محمد اکرم کے علاوہ سیکرٹری کیبنٹ ڈویڑن ، ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ ، چیئر پرسن اوگرا، منیجنگ ڈائریکٹر سوئی سدرن گیس پائپ لائن ، منیجنگ ڈائریکٹر سوئی سدرن گیس پائپ لائن و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

موضوعات:



کالم



دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام


شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…