لاہور (ا ین این آئی)لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے سرزنش کے بعد سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ نے تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی ، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اتنا اہم معاملہ ہے کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، اگرریکارڈ میں تبدیلی ہوئی تو سب اندر جائیں گے۔لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے سے متعلق مقتول خلیل کے بھائی
جلیل سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی جن میں جے آئی ٹی کالعدم قرار دینے اور جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے ۔دوران سماعت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)کے سربراہ اعجاز شاہ اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے جے آئی ٹی سربراہ سے استفسار کیا کہ تفتیش کی رپورٹ کہاں ہے۔سربراہ جے آئی نے بتایا کہ فائل تفتیشی افسر کے پاس ہے ۔تفتیشی رپورٹ پیش نہ کرنے پر چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے سربراہ پر برہمی کا اظہار کیا اور سرزنش کی ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جے آئی ٹی سربراہ کو ایک بجے تفصیلی رپورٹ کے ہمراہ دوبارہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اتنا اہم معاملہ ہے کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر عدالتی کمیشن بنے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت براہ راست عدالتی کمیشن بنانے کا حکم نہیں دے سکتی، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جب سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا تو پنجاب حکومت نے عدالتی کمیشن بنایا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اب قانون تبدیل ہو چکا ہے یہ اختیار اب وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
جس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دن کی روشنی میں بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کر دیا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک درخواست گزار نے وزیر اعظم کو عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے درخواست دی ہے، آئندہ سماعت پر بتایا جائے کہ عدالتی کمیشن بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم سے رابطہ کر کے عدالت کو بتائیں کہ عدالتی کمیشن کا کیا بنا، یہ بڑا حساس اور اہم معاملہ ہے۔
عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 1بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کے حوالے سے ہمیں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی پنجاب عدالت میں پیش کیوں نہیں،عدالتی آرڈر میں واضح لکھا ہے کہ آئی جی پنجاب ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ۔ اس کے ساتھ سانحہ ساہیوال سے متعلق
پولیس کی تفتیشی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کروائی گئی ۔سرکاری وکیل نے بتایا کہ تمام دستیاب ثبوت اکٹھے کرلیے ہیں،صرف مدعی تعاون نہیں کررہے ہیں۔عدالت نے سربراہ جے آئی ٹی سے استفسار کیا کہ رکارڈ کے مطابق کیا ثبوت اکٹھے ہیں۔جس پر عدالت کوبتایا گیا کہ عینی شاہدین کے بیانات،جائے وقوعہ سے اشیاء ،گولیوں کے خول،گاڑی قوت واقعہ سے متعلق تمام تر فوٹیج حاصل کی ہے۔سرکاری وکیل نے بتایا کہ واقعہ میں ملوث اہلکاروں کی شناخت ہوچکی ہے۔
مقتولین کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں شناخت پریڈ کی ضرورت نہیں،شناخت پریڈ چور ڈاکو کی ہوتی ہے یہاں تو سب باوردی تھے۔چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے جے آئی ٹی سربراہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے یہ چیک کیا کہ کون ایسے آپریشن کی ہدایت دیتا ہے،کوئی نہ کوئی تو افسر ہوگا جس نے آپریشن کے لئے احکامات دیئے ۔کیا ہدایت دینے والے افسر کا نام ایف آئی آر میں درج کیا ہے۔وکیل شہباز بخاری نے بتایا کہ صرف انکو گرفتار کی گیا ہے جو آپریشن میں براہ راست ملوث تھے،
آپریشن کی اجازت دینے والے کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میرا سوال وہی ہے کہ کس افسر نے انہیں آپریشن کی ہدایت کی۔جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ جس افسر نے آپریشن کا حکم دیا اسے معطل کردیا گیا ہے۔جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ جب بھی کوئی آپریشن ہوتا ہے تو سرکاری ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے،سرکاری ریکارڈ مجھے چاہیے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اصل شخص کون ہے،اگرریکارڈ میں تبدیلی ہوئی تو سب اندر جائیں گے۔بعد ازاں کیس کی مزید سماعت سات فروری تک ملتوی کر دی گئی۔