وزیراعظم عمران خان کی نمل یونیورسٹی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کا انکشاف، میڈیکل کالجز کو الحاق فراہم کرتی رہی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں حیران کن انکشافات ‎

31  دسمبر‬‮  2018

اسلام آباد(آن لائن) آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) جو میڈیکل یونیورسٹی نہیں ہے، اس نے ایک ایسے کالج کو الحاق دیا جو میڈیکل کی تعلیم فراہم کرتا ہے۔چند روز قبل جاری ہونے والے آڈٹ رپورٹ 18۔2017 میں کہا گیا کہ

نمل یونیورسٹی نے 2006 میں راولپنڈی کے آرمڈ فورسز پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ (اے ایف پی جی ایم آئی) کو الحاق عطا کیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ’الحاق شدہ ادارے میڈیکل کی تعلیم فراہم کررہے تھے جبکہ نمل کی جانب سے اس طرح کی کوئی تعلیم نہیں دی جارہی تھی، ساتھ ہی مزید کہا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے اصولوں کے مطابق الحاق کمیٹی کے قیام کا آڈٹ فراہم نہیں کیا گیا۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایچ ای سی کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ یونیورسٹیز انسٹی ٹیوشن کی جانب سے ان پروگراموں کے الحاق کی درخواستوں کے لیے غور کریں گی جو جامعات کے پروگرامات سے مماثلت رکھتے ہوں۔اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا کہ میڈیکل ادارے کی ایک غیر میڈیکل یونیورسٹی سے الحاق ’غیر منصفانہ اور غیر قانونی‘ ہے۔رپورٹ میں نمل سے موصول جواب کو نقل کیا، جس میں یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ 5 جنوری 2006 کو اے ایف پی جی ایم ا?ئی کے ساتھ الحاق کسی ڈگری پروگرام کے لیے نہیں بلکہ میڈیکل ایڈمنسٹریشن میں سرٹیفکیٹ کے لیے دیا گیا۔17 نومبر 2016 کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خط کی وصولی پر نمل نے بتایا کہ انہوں نے فوری طور پر کارروائی کی اور اے ایف پی جی ایم آئی کو مشورہ دیا کہ وہ میڈیکل ایڈمنسٹریشن میں جہاں کورس پیش کر رہے ہیں وہیں اس ڈپلومے کے لیے الحاق حاصل کریں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 9 نومبر 2017 کے اجلاس میں ڈپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی) نے انتظامیہ کو ہدایت دی کہ

وہ آڈٹ کی جانب سے تصدیق شدہ ایچ ای سی کے الحاق کے معیار سے متعلق ریکارڈ حاصل کرے۔’آڈٹ نے تجویز دی کہ الحاق کے لیے ایچ ای سی معیار کی خلاف ورزی ڈی اے سی کے فیصلے کو نافذ اور ذمہ داری ثابت کی جاسکتی ہے‘رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نمل انتظامیہ نے معاہدے کی بنیاد پر متعدد غیر قانونی بھرتیاں کیں، جس میں 16۔2015 کے درمیان اکیڈمی پر 32 فکیلٹی ممبر اور انتظامی عہدوں پر 29 عہدیداروں کی تقرریاں شامل ہیں۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ یونیورسٹی کے آرڈیننس کے تحت ریکٹر کو بااختیار بنایا گیا ہے کہ وہ معاہدے کی بنیاد پر 2 سال سے کم عرصے کے لیے اساتذہ، آفیسرز اور اسٹاف ارکان کی تعینات کرسکتا ہے۔نمل نے جواب دیا کہ ’یہ تمام تقرریاں مجاز اتھارٹی کی جانب سے قائم کی گئی سلیکشن کمیٹی کے ذریعے کی گئیں‘۔رپورٹ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی (اے آئی او یو) کے آڈٹ پر بھی روشنی ڈالی گئی اور بتایا گیا کہ جعلی بینک اسٹیمپس کے ذریعے داخلہ فیس کی مختصر کلیکشن اور 2 کروڑ 40 لاکھ روپے کے اضافی اسپیئر پارٹس کی خریداری پر غیر قانونی اخراجات آئے۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے نشر و اشاعت یونٹ میں مشین کے سامان کے لیے اسپیئر پارٹس کی خریداری پرتقریباً 2 کروڑ 43 لاکھ روپے کے خرچ کیے، تاہم رپورٹ میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ یہ اسپیئر پارٹس ابھی تک گودام میں ہیں اور 30 جون 2017 تک انہیں استعمال نہیں کیا گیا۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی انتظامیہ نے آڈٹ ٹیم کو بتایا کہ اس معاملے کو دیکھنے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی پہلے ہی قائم کردی گئی ہے۔

رپورٹ میں ایڈمیشن فارم دھوکا دہی کی نشاندہی کی گئی اور کہا گیا کہ 2013 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے جعلی بینک اسٹیمپس کی جانچ پڑتال کے لیے 13۔2012 اسپرنگ سمسٹر سے متعلق بی ایڈ پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی پروگرامز کے ایڈمیشن فارمز اور فیس کی تصدیق کے لیے کمیٹی قائم کی تھی۔آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا گیا اور متعلقہ حکام سے کوئی وصولی بھی نہیں دیکھنے میں آئی۔

یونیورسٹی کی جانب سے آڈٹ ٹیم کو کہا گیا کہ یہ معاملہ تحقیقات کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) اور 2017 ستمبر میں ڈی اے سی کو بھیجا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ کیس میں جلدی فیصلے کے لیے وائس چانسلر کی جانب سے نیب کو خط بھیجا جائے گا۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ کومسیٹس انتظامیہ نے ٹینیور ٹریک سسٹم (ٹی ٹی ایس) پر غیر قانونی بھرتیاں کیں اور بغیر اشتہار اور سلیکشن بورڈ اور بورڈ آف گورنرز یا ایچ ای سی کی توثیق کی منظوری کے بغیر 6 کروڑ 90 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق کومسیٹس انتظامیہ نے جواب دیا کہ ٹی ٹی ایس بھرتیاں سی آئی آئی ٹی ٹی ٹی ایس اسٹیٹمنٹ 2009 میں موجود اہلیت کے معیار کے مطابق کی گئیں، تاہم یونیورسٹی کا یہ جواب قبول نہیں کیا گیا کیونکہ اس میں کوئی دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈی اے سی نے ستمبر 2017 میں اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ سلیکشن بورڈ کے ذریعے تقرر نہ ہونے والے عہدے کے لیے دوبارہ اشتہار دیا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 16۔2015 کے درمیان کومسیٹس نے مخصوص ماہانہ تنخواہوں پر ایڈوائزر اور کنسلٹنٹس کی 27 غیر قانونی تقرریاں کی اور انہیں تقریباً 2 کروڑ 63 لاکھ روپے ادا کیے جبکہ 28 کنسلٹنٹس اور ایڈوائزر سے منسلک پرنسپل نشست کے لیے تقریباً ایک کروڑ 67 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام ایڈوائزر اور کنسلٹنٹس کی تقرری بغیر اشتہار اور مقابلے کے ہوئی، تاہم یونیورسٹی کے جواب میں کہا گیا کہ ڈی اے سی کی سفارشات کی روشنی میں 30 جون 2017 سے متعدد ایڈوائزر اور کنسلٹنٹس کے کنٹریکٹس ختم کردیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کے اس جواب کو منظور نہیں کیا گیا کیونکہ انتظامیہ نے ان کنسلٹنٹس کی فہرست فراہم نہیں کی جنہیں نکالا گیا تھا۔ا?ڈیٹرز نے نشاندہی کی کہ قائد اعظم ینیورسٹی (کیو اے یو) انتظامیہ نے سینڈیکیٹ سے منظوری لیے بغیر 16 کروڑ روپے کی غیرقانونی سرمایہ کاری کی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر منظوری کے 3 سال کے لیے دبئی اسلامک بینک کے ساتھ فنڈز میں سرمایہ کاری کی۔

اس کے علاوہ 16۔2015 میں قائد اعظم یونیورسٹی کے ملازمین کے لیے 7 کروڑ 10 لاکھ روپے کے 20 فیصد خصوصی الائنس کی غیر قانونی طور پر ادائیگی کی گئی۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ یہ ادائیگی سنڈیکیٹ فیصلے کی بنیاد پر کی گئی لیکن اس جواب کو تسلیم نہیں کیا گیا کیونکہ خصوصی الاؤنس صرف وزارتوں اور محکموں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے قابل قبول ہے۔اس رپورٹ کے مختلف حصوں میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں پارٹ ٹائم اساتذہ اور وزٹنگ فکیلٹی کے غیر قانونی تقرریاں اور ملازمین کو میڈیکل الاؤنس کی ادائیگی کا ذکر کیا گیا۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…