کراچی(این این آئی)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کردیاہے،جس کے بعد شرح سود 10 فیصد ہوگئی۔جمعہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دوماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے جس کے مطابق شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا جارہا ہے شرح سود 8.5 سے بڑھا کر 10 فیصد کردی گئی ہے جو آئندہ دو ماہ تک رہے گی اور اس کا اطلاق یکم دسمبر سے ہوگا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ادائیگیوں سے نمٹنے کے لئے شرح سود بڑھائی گئی ہے، اور یہ شرح 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی کی بڑھتی رفتارکو روکنے کی ضرورت ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، معیشت میں استحکام کے لئے مزید کوششیں درکار ہیں۔اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ستمبر 2018میں زری پالیسی کمیٹی کے پچھلے اجلاس کے بعد سے جاری ہونیوالے معاشی اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ استحکام کے حالیہ اقدامات کے مثبت اثرات بتدریج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری کے کچھ ابتدائی آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔ تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بلند مالیاتی خسارے اور زرِ مبادلہ کے کم ذخائر کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو درپیش قلیل مدت دشواریاں برقرار رہیں۔ اس تشویش کی عکاسی اعتمادِ صارف اور کاروبار کے حالیہ سرویز کے نتائج سے بھی ہوتی ہے۔مالی سال 19 کے پہلے چار ماہ کے دوران اوسط مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) بڑھ کر 5.9 فیصد ہوگئی جبکہ مالی سال 18 کی اسی مدت میں 3.5 فیصد تھی۔قوزی مہنگائی میں یہ رجحان اور بھی نمایاں تھا جس سے معیشت میں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباو کا پتہ چلتا ہے۔اجزا کا تجزیہ کرنے پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا سبب طلبی اور رسد ی دونوں عوامل ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے مالی سال 19 کے لیے اوسط مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کی پیش گوئی 6.5-7.5 فیصد کی حدود میں رکھی ہے جو 6.0 فیصد کے سالانہ ہدف سے زیادہ ہے۔اگرچہ تیل کی عالمی قیمتوں میں حالیہ کمی ممکنہ طور پر مہنگائی کے موجودہ رجحان کو آہستہ کرنے میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہے تاہم فی الحال خطرات کا میلان کمی کی طرف ہے۔بڑے پیمانے پر اشیا سازی حالیہ اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو توقع ہے کہ مالی سال 19 کے دوران معاشی سرگرمیوں میں نمایاں اعتدال آئے گا جو معاشی استحکام کی راہ پر چلنے کی قلیل مدت لاگت کی عکاس ہے۔
امکان ہے کہ جنوری 2018 سے اب تک پالیسی ریٹ میں 275 بیسس پوائنٹس کا تاخیر سے اثر رواں مالی سال کے دوران ملکی طلب کو قابو میں رکھے گا۔ مزید برآں، توقع ہے کہ گندم کے سوا اہم فصلوں کے ابتدائی تخمینے گذشتہ برس میں حاصل کردہ سطح سے کم رہیں گے ۔اجناس پیدا کرنے والے شعبوں میں سست رفتاری کی بنا پر خدمات کے شعبے میں اضافہ بھی محدود رہنے کا امکان ہے۔ اس پس منظر میں مالی سال 19 کے لیے اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی ہے کہ حقیقی جی ڈی پی نمو 4.0 فیصد کی سطح سے تھوڑی سی زیادہ رہے گی۔بیرونی شعبے میں درآمدی نمو جولائی تا اکتوبر مالی سال 19 کے دوران کم ہوکر 5.8 فیصد رہ گئی
جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے میں 26.3 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جس سے سخت روی کے حالیہ اقدامات کے اثر کی عکاسی ہوتی ہے۔ درآمدات کی یہ نمو بھی زیادہ تر تیل کی بلند عالمی قیمتوں کی بنا پر تیل کے درآمدی بل میں اضافے کی بنا پرہوئی ۔ نان آئل درآمدات مالی سال 19 کے پہلے چار ماہ میں 4.0 فیصد گھٹ گئیں۔اس کے ہمراہ برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافے نے جولائی تا اکتوبر مالی سال 19 میں بیرونی جاری کھاتے کے خسارے کو کم کرکے 4.8 ارب ڈالر کردیا جبکہ جولائی تا اکتوبر مالی سال 18 میں یہ 5.1 ارب ڈالر تھا، یعنی مجموعی طور پر 4.6 فیصد کی بہتری آئی۔ اس مثبت پیش رفت کے باوجود اسٹیٹ بینک کے
سیال زرِمبادلہ کے خالص ذخائر پر دباو برقرار رہاجو 23 نومبر 2018 کو کم ہوکر ذخائر 8.1 ارب ڈالر ہوگئے جبکہ مالی سال 18 کے اختتام پر 9.8 ارب ڈالر تھے۔آگے چل کر توقع ہے کہ مالی سال 19 کی دوسری ششماہی میں نجی اور سرکاری دونوں ذرائع سے زیادہ بیرونی رقوم آئیں گی۔ مزید برآں، حالیہ دوطرفہ انتظامات بشمول تیل کی موخر ادائیگی سے متعلق حالیہ سہولت بھی جنوری 2019 اور اس کے بعد مارکیٹ کو دستیاب ہوگا۔ جاری کھاتے کے خسارے میں متوقع کمی جسے تیل کی عالمی قیمتوں میں حالیہ کمی سے مزید تقویت مل سکتی ہیز رِمبادلہ کی مارکیٹ میں اعتماد پیدا کرنے کے حوالے سے نیک شگون ہے۔ یہ حالات اسٹیٹ بینک کے
خالص سیال زرِمبادلہ کے ذخائر پر دباو میں کمی لانے میں معاون ہوں گے ۔ مالی سال 19 کے پہلے ساڑھے چار ماہ کی شماریات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینکاری نظام کی تقریبا تمام سیالیت خالص ملکی اثاثوں (NDA) میں اضافے کی بنا پر پیدا ہوئی کیونکہ خالص بیرونی اثاثے (NFA)مسلسل کم ہوتے رہے۔ بجٹ کی کمی پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے قرض کے علاوہ نجی شعبے کو دیا جانے والا نسبتا زیادہ قرضہ خالص ملکی اثاثوں میں اضافے کی بڑی وجوہ ہیں۔ سکڑاو کے زری حالات کے باوجود پچھلے تین برسوں میں استعداد بڑھنے کی وجہ سے جاری سرمائے کی ضروریات میں اضافہ اور خا م مال کی قیمتوں کا نمایاں طور پر بڑھنا نجی شعبے کو دیے جانے
والے نسبتا زیادہ قرضے کی بنیادی وجوہات ہیں۔ان تمام حالات پر سوچ بچار کے بعد زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ (i) مہنگائی کے مسلسل دباو(اور مہنگائی کی بڑھتی ہوئی توقعات) کو روکنے کی ضرورت ہے (ii) حقیقی شرح سود کم ہے؛ (iii)اگرچہ جاری کھاتے کا خسارہ کم ہورہا ہے تاہم اس کی سطح اب بھی بلند ہے؛ اور (iv) نئے عالمی حالات خصوصا ترقی یافتہ معیشتوں میں بتدریج لیکن مسلسل زری پالیسی کا معمول پر آنا،ملک کے اندر فعال زری انتظام کا متقاضی ہے۔مذکورہ بالا موجودہ اور ابھرتی ہوئی معاشی صورتِ حال کی روشنی میں زری پالیسی کمیٹی کا یہ نقطہ نظر ہے کہ معیشت میں استحکام کے لیے کی مزید کوششیں درکار ہیں۔ چنانچہ 3 دسمبر 2018 سے
پالیسی (ٹارگٹ) ریٹ کو 150 بی پی ایس بڑھا کر 10.0 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وسط مدت میں توازن ادائیگی کی پھر سے ابھرتے ہوئے چیلنجوں پر قابو پانے کی حکمت ہائے عملی کے بارے میں زری پالیسی کمیٹی نے رائے دی کہ: (i)چونکہ شرح مبادلہ، زرِمبادلہ مارکیٹ میں طلب و رسد میں فرق کی عکاسی کررہا ہے اس لیے مہنگائی کے ہدف کا ایک لچکدار فریم ورک اختیار کرنا مہنگائی کی توقعات کو قابورکھنے میں مدد دے گا؛ (ii)برآمدات کی پیداواریت اور مسابقت میں بہتری کو بھی وسط مدت میں نمایاں کردارا دا کرنا پڑے گا تاکہ بیرونی تجارتی خسارہ کم کیا جاسکے؛ اور(iii) مالیاتی پالیسی کو فعال ہونا ہوگا اور پائیدار نمو کے راستے کے لیے حالات پیدا کرنے کے لیے معاون کردار ادا کرنا ہوگا۔