منگل‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

جوتا چھپائی کی رسم میں سالیاں جوتی غائب کر کے رقم لے جاتی ہیں،یہ رسم ہر جمعہ کو مسجدوں کے باہر سالے ادا کرتے ہیں، کئی لوگ آم پولا کر کے کسی دوسرے کو چوسنے کیلئے دے دیتے ہیں،عطا الحق قاسمی کا ایسا کالم کہ ہنس ہنس کر آپ کا بھی حال برا ہو جائیگا

datetime 9  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)عطاالحق قاسمی کے مزاح سے بھرپور کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوتے رہتے ہیں، آج انہوں نے اپنے کالم چند ’’ٹوٹے ‘‘لکھا ہے جو کہ ان کی کتاب کتاب ایک غیر ملکی سیاح کا سفر نامہ سے اقتسابات پر مشتمل ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔ عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں کہ شادی کے موقع پر دولہا کی سالیاں اپنے برادر ان لا کو جوتیاں اتار کر بیٹھنے پر زور دیتی ہیں

چنانچہ جب وہ جوتیاں اتارتا ہے تو موقع پا کر یہ سالیاں جوتی غائب کر دیتی ہیں۔ بعد میں اس جوتی کی واپسی کے لئے دولہا کو منہ مانگی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ جوتی چرانے کی یہ رسم شادی بیاہ کے علاوہ ہر جمعہ کو مسجدوں کے باہر بھی ادا کی جاتی ہے اور یہ رسم سالیاں ادا نہیں کرتیں۔ ممکن ہے یہ رسم سالے ادا کرتے ہوں تاہم میں نے اس ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی۔عورت کو پائوں کی جوتی سمجھنے کے باعث یہاں سالا ایک گھٹیا چیز اور بہنوئی ایک آسمانی چیز سمجھی جاتی ہے تاہم ہر شخص جو یہاں بہنوئی کے مرتبے پر فائز ہوتا ہےوہ بیشتر صورتوں میں کسی نہ کسی کا سالا بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں ہر شخص کی آدھی زندگی بطور بہنوئی اور آدھی زندگی بطور سالے کے گزرتی ہے۔ ایک بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہاں داماد کو تو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے لیکن گھر داماد کے ساتھ بڑا حقارت آمیز سلوک ہوتا ہے ۔ واضح رہے داماد وہ ہوتا ہے جو لڑکی کو بیاہ کر گھر لایا ہوتا ہےاور گھر داماد اسے کہتے ہیں جسے لڑکی بیاہ کر لاتی ہے۔لاہور کے بینکوں میں کیش کی وصولی کے دو طریقے ہیں۔ ایک چیک دے کر دوسرا کیشئر کو پستول دکھا کر۔ دوسرا طریقہ عوام میں زیادہ مقبول ہے کیونکہ بینکوں میں چیک دے کر رقم کیش کرانے میں خاصا وقت لگتا ہے۔یہاں کزن کا رشتہ مجھے خاصا الجھا ہوا محسوس ہوا ایک شخص نے اپنی ساتھی خاتون کا تعارف

مجھ سے کرایا اور کہا یہ میری کزن ہے۔ اس وقت میرے پاس ایک اور شخص نے اپنی ساتھی خاتون کا تعارف مجھ سے کرایا اور کہا یہ میری کزن ہے۔ اس وقت میرے پاس ایک اور شخص بیٹھا ہوا تھا۔اس نے میرے کان میں کہا پچھلے سال یہ میری کزن تھی۔ رشتے کی یہ روٹین میں نے اس خطے میں دیکھی ہے۔مشرق واقعی بہت پراسرار ہے۔ہمارے ہاں مغرب میں مکئی کی روٹی ہوتی ہے،

بیسن کی روٹی ہوتی ہے، چھان بورے کی روٹی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جس روٹی کا ذکر بہت عام ہے وہ عزت کی روٹی ہے تاہم میں صرف اس کا ذکر ہی سنتا رہا کسی کو کھاتے نہیں دیکھا۔ میں ایک دفعہ لاہور کے بازار حسن مجرا دیکھنے گیا جو طوائف مجرا کر رہی تھی وہ بہت خوبصورت تھی ۔ میں نے اس سے پوچھا تم فلموں میں کام کیوں نہیں کرتیں؟ اس نے جواب دیا مجھے فلموں میں

کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ بس عزت کی روٹی دے رہا ہے ۔ اس پر مجھے ایک بار پھر تجسس ہوا کہ یہ عزت کی روٹی کیا چیز ہے؟ بہرحال پاکستان میں قیام کے دوران میں نے عزت کی روٹی کا ذکر ثبوت خوروں، ہیروئن فروشوں، بردہ فروشوں اور ضمیر فروشوں سب کی زبان سے بار بار سنا یقیناً یہ کوئی بہت لذیذ چیز ہو گی تبھی تو سارے طبقے اس کا ذکر کرتے ہیں۔لاہورئیے

بہت خوش طبع لوگ ہیں چنانچہ یہاں ایک ایسے ہی خوش طبع شخص سے میری ملاقات ہوئی اس نے مجھے بتایا کہ اس کی دو کمزوریاں ہیں ایک کمزوری عورت اور دوسری مردانہ کمزوری ،عجب مسخرہ شخص تھا۔ہم اہل مغرب لوٹے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ یہ ہمارے ہاں نہیں ہوتا جبکہ پاکستان میں یہ برتن انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کے بغیر کوئی ٹائلٹ مکمل نہیںسمجھا جاتا۔

ایک لاہوریا مجھے بتا رہا تھا کہ لوٹوں کے بغیر کوئی پارلیمنٹ بھی مکمل نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں وہ اپنی روایتی زندہ دلی کا مظاہرہ کر رہا تھا ورنہ لوٹوں کا پارلیمنٹ سے کیا تعلق ہے۔پاکستان میں پاکستانی کلچر کے فروغ کیلئے بہت سے ادارے اور این جی اوز کام کر رہی ہیں اس ضمن میں مجھے جو بات بہت اچھی لگی وہ یہ تھی کہ ان اداروں کے منتظمین کا پاکستانی کلچر سےکوئی تعلق نہیں تھا

اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کلچر میں پرورش پانے والا شخص اپنے کلچر کو اتنا نہیں سمجھ سکتا جتنا دور سے نظارہ کرنے والا شخص سمجھ سکتا ہے۔پاکستان میں دو کاروبار بڑے منافع بخش ہیں ۔ ایک کاروبار بیوٹی پارلر اور دوسرا حکیموں کا ہے، خصوصاً شادی کے دنوں میں یہ دونوں کاروبار عروج پر ہوتے ہیں۔ شادی والے روز دلہن بیوٹی پارلر اور دلہے حکیموں کا رخ کرتے ہیں۔

پاکستان کا قومی لباس شلوار کرتا ہے میرے لئے اپنے مغربی دوستوں کو شلوار کے کوائف سے پوری طرح آگاہ کرنا خاصا مشکل ہے۔بس یہ سمجھ لیں کہ پنجاب میں جو شلوار پہنی جاتی ہے اس پر بھی اگرچہ کافی کپڑا لگتا ہے مگر سندھ بلوچستان اور سرحد کی شوار کا طول و عرض تقریباً برطانیہ کے رقبے کے برابر ہے پاکستان کے رورل ایریا ز میں دستار کا بھی بہت رواج ہے

جسے عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے چنانچہ ان علاقوں کے جاگیردار اور وڈیرے انگریز کے زمانے سے لیکر آج تک ہر دور حکومت میں اپنی دستار کی حفاظت کرتے رہے۔ شلوار کی کبھی پروا نہیں کی۔پاکستان میں ایک بہت لذیذ پھل پایا جاتا ہے جسےآم کہتے ہیں ۔ اسے لالی پاپ کی طرح چوسا جاتا ہے اور چوسنے سے پہلے اسے پولا کرتے ہیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ اسے دونوں جانب سے آہستہ آہستہ دبایا جاتا ہے اور یوں اس کا رس چوسنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے کئی لوگ آم پولا کر کے کسی دوسرے کو چوسنے کے لئے دیتے ہیں اور یہ قربانی ان کی ترقی کے رستے کھول دیتی ہے ۔ میں نے ایک صاحبسے پوچھاکیا کرتے ہیں۔ اس نے جواب دیا کچھ نہیں، آم پولا کرتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…