اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید احتجاج دیکھنے میں آیا اور اسی احتجاج کے دوران اچانک ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ مظاہرین کا رویہ پرتشدد ہو گیا اور انہوں نے نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا ، جلائو ، گھیرائو ، توڑ پھوڑ نے پوری ریاست کو حیران کر دیا، کئی اہم شاہرات مظاہرین نے
بند کر دیں جبکہ کئی اہم شہروں کے اہم مقامات پر دھرنے دے دئیے گئے۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان نے قوم سے ہنگامی خطاب کرتے ہوئے احتجاج کرنیوالوں کی کارستانی پوری قوم کے سامنے رکھی کہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت فیصلہ دینے والے ججز کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا ہے جبکہ آرمی چیف بارے بھی قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس موقع پر وزیراعظم نے ایسا کرنیوالوں سے سختی سے نمٹنے کی بھی وارننگ دی ۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان اپنے طے شدہ دورہ چین پر روانہ ہو گئے اور ان کے بعد ان کی کابینہ کے وزرا میں سے کوئی بھی نظر نہ آیا تاہم وزیراعظم عمران خان نے جاتے ہوئے مظاہرین سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سربراہی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کر رہے تھے جبکہ ممبران میں تحریک انصاف کے دیگر رہنما اور اداروں کے نمائندے بھی شامل تھے۔ انہوں نے دھرنا قیادت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ایک معاہدے کے تحت احتجاج ختم کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس معاہدے میں دھرنا قیادت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا ان کے گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جائے گا۔ حکومت آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی مخالفت نہیں کریگی ، آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی جبکہ اس موقع پر دھرنا
قیادت نے قوم سے اپنے روئیے کی بھی معذرت کی ۔ دھرنے ختم ہونے کے بعد حکومت نے نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف کریک ڈائون شروع کرتے ہوئے ملک بھر سے گرفتاریاں کیں اور سیکڑوں افراد کو گرفتارکر لیا گیا ہے جبکہ ویڈیوز اور سوشل میڈیا پر آنیوالی تصاویر کے ذریعے خطرناک حد تک تجاوز کرنیوالے مظاہرین کی بھی شناخت کر کے 36ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم میڈیا پر حکومت کو اس بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ حکومت نے عام مظاہرین کو تو گرفتار کر لیا ہے اور مزید کی گرفتاریوں کا ارادہ رکھتی ہے تاہم دھرنا قیادت اور مظاہرین کو اکسانے والوں کو گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے معروف صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار سلیم صافی اپنے تازہ کالم میں لکھتے ہیں کہ مجھے ان دنوں ریاست پاکستان کا بلڈ پریشر بھی فرید طوفان کے بلڈ پریشر جیسا نظرآرہا ہے ۔ اس ریاست کا بلڈ پریشر سیاستدانوں اور مغضوب میڈیا آرگنائزیشنز یا صحافیوں کے معاملے میں تو ہر وقت ہائی رہتا ہے لیکن بعض لوگ جو بار بار چیف جسٹس، آرمی چیف اور وزیراعظم کو گالیاں دے کر فتوئوں سے نواز رہے ہیں، کے بارے میں اس کا بلڈ پریشربلند ہی نہیں ہورہا ۔ مہاجروں، بلوچوں اور پختون قوم پرستوں کے بعض لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے ریاست کا بلڈ پریشر اس قدر بلند ہوگیا ہے کہ نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا
لیکن بعض اداروں اور افراد کے بارے میں اوپر جانے کا نام ہی نہیں لےرہا میں طاقت کے استعمال کے حق میں ہوں اور نہ اس کا مطالبہ کروں گا ۔ جب پورا پاکستان بند کیا گیا تھا اور اکثر لوگ مذہبی جماعتوں کے دھرنوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا مطالبہ کررہے تھے تو میں اس وقت بھی طاقت کے استعمال سے گریز کی دہائیاں دے رہا تھا ۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب لاہور میں
دھرنے کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہوا تھا اور اس رات میں نے خود رابطہ کرکے فوادحسین چوہدری صاحب کی منتیں کیں کہ وہ اپنی حکومت سے فیصلہ واپس کروالیں لیکن قانونی چارہ جوئی تو ہونی چاہئے تھی جو نہیں ہوئی ۔ یہ تو بچہ سقہ کا نظام لگتا ہے کہ جس میں تشدد کے مرتکب غریب کارکنان کے خلاف تو کارروائی ہورہی ہے لیکن تشدد پر اکسانے والوں سے پوچھا نہیں جارہا ۔ جس میں
عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والے جذباتی مسلمانوں کی تو پکڑ دھکڑ جاری ہے لیکن ماسٹر مائنڈز کے ناز نخرے اٹھائے جارہے ہیں ۔ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے ۔ وہ شفقت سے کام لیتی ہے لیکن اگر وہ شفقت کا مظاہرہ کرتی ہے تو پھر سب بچوں سے متعلق کرتی ہے ۔ یہ نہیں ہوتا کہ جس غلطی پر ایک بچے کو تھپڑ رسید کرے ، اسی غلطی پر دوسرے بچے کو شاباش دے ۔
ماں بچوں کی بعض غلطیوں اور گستاخیوں کو ناقابل معافی سمجھتی ہے لیکن پھر سب بچوں کی اسی طرح کی غلطی ناقابل معافی سمجھتی ہے ۔ ماں بعض اوقات تفریق کرتی ہے اور بعض بچوں کو زیادہ محبت یا زیادہ رحم سے نوازتی ہے لیکن وہ کمزور اور پیچھے رہ جانے والے بچے کے ساتھ ایسا کرتی ہے نہ کہ طاقتور بچے کے ساتھ ۔ بچوں کی صف میں ماں کی ہمدردی ہمیشہ شریف، کمزور
اور پیچھے رہ جانے والے بچے کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے لیکن ریاست پاکستان کا معاملہ الٹ ہے ۔ یہ ریاست طاقتور اداروں سے وابستہ افراد یا پھر زیادہ سے زیادہ شر پھیلانے کی صلاحیت رکھنے والوں کے معاملے میں تو خاموش رہتی ہے یا پھر مٹی پائو کا رویہ اپناتی ہے لیکن بعض طبقات، بعض قومیتوں اور بعض اداروں کی معمولی سی غلطی پر اس کا بلڈ پریشر آسمان کوچھو جاتا ہے۔
اس سے ریاست کے بعض شہریوں میں یہ خطرناک احساس جنم لے رہا ہے کہ ریاست اگر ماں ہے بھی تو وہ اسے سوتیلا بچہ سمجھ رہی ہے جبکہ بعض بچے اس کے لاڈلے ہیں ۔ مرضی ریاست کی ہے کہ وہ رحم اور شفقت سے کام لیتی ہے یا پھر طاقت اور قہر سے لیکن بہر حال اس ریاست کو بچانے کے لئے سب شہریوں سے ایک جیسا رویہ اپنانا ہوگا ۔ ریاست کو چاہئے کہ وہ اپنے بلڈ پریشر
کو ماں کا بلڈ پریشر بنائے نہ کہ فرید طوفان کا بلڈ پریشر ۔ ورنہ تو خاکم بدہن اس ریاست کا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو فرید طوفان کا ہو ا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ انہیں اے این پی سے نکال دیا گیا ۔ جس بیگم نسیم ولی خان پر فرید طوفان نے اسٹینڈ لیا تھا ، ان کو تو واپس اپنا لیا گیا لیکن اسفندیارولی خان نے ان کو دوبارہ قبول کرنے سے انکار کیا ۔ وہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلز پارٹی سے ہوتے ہوتے تحریک انصاف میں جاپہنچے ۔