اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف اس وقت وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اقتدار میں آچکی ہے تاہم اقتدار انتقال کے تمام مراحل بھی مکمل ہونے کے بعد تحریک انصاف کے وزرا کی جانب سے اپوزیشن پر لفظی گولہ باری جاری ہے جس نے سیاسی ماحول کو خطرناک حد تک گرم کر دیا ہے اور اب اسمبلی ، ٹاک شوز اور میڈیا ٹاکس میں دونوں جانب سے ایسے الفاظ
کا استعمال شروع ہو چکا ہے جس نے تمام پارلیمانی روایات اور آداب کے ساتھ سیاسی مروت اور بردباری اور تحمل کو بھی پچھاڑ دیا ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کی پالیسیوں کےحامی اور عمران خان کی ہر موقع پر صحافتی انداز میں اصلاح اور تصحیح کرنیوالے معروف صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار حسن نثار بھی موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے وزرا سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے تازہ کالم میں انہوں نے لکھا ہے کہ منیر نیازی جیسا تو دور کی بات، اس سے ملتا جلتا بھی نہ کوئی پہلے تھا نہ آئندہ ہوگا۔ منیر کی شاعری توبےمثال اور لازوال ہے ہی، اس کی جملہ بازی بھی لاجواب اور انوکھی ہوتی مثلاً ایک بار کسی کو اوقات سے باہر بلکہ بہت ہی باہر نکلتے اور بڑھکیں بونگیاں مارتے، لاف زنی کرتے دیکھا تو منیر نے اپنے مخصوص انداز میں کہا…. ’’ہے تو یہ اسکوٹر لیکن ہارن اس کو کسی ٹرک کا لگا ہوا ہے‘‘ مدتوں بعد منیرنیازی کا یہ تبصرہ مجھے تحریک ِ انصاف کے کچھ نوزائیدہ منتخب نمائندوں کو دیکھ کر یاد آرہا ہے جو ہر وقت، ہر جگہ گرم توے پر اچھل کود میں مصروف ہوتے ہیں۔ مزید چند مہینے یا شاید ہفتے یہ پرفارمنس اسی طرح جاری رہی تو لوگ انہیں سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیں گے اور پھر ان میں ’’تبدیلی‘‘ آ بھی گئی تو ان کا امیج تبدیل نہیں ہوگا۔ انہیں چاہئے اپنے حال پر رحم کھائیں کیونکہ اس رویہ سے خود انہیں ہی نہیں،
ان کی پارٹی اور حکومت کو بھی نقصان ہوگا۔ مخصوص قسم کی گردان سے بچیں، تحمل سے کام لیں اور تعمیری قسم کے موضوعات پرفوکس کریں کیونکہ ایک جمہوری حادثے کے نتیجہ میں ان پر پارلیمنٹیرینز ہونے کی مہر لگ چکی ہے۔خود عمران خان کے لئے کھیل بہت خطرناک حدود میں داخل ہوچکا ہے کیونکہ پی ٹی آئی میں وہ واحد آدمی ہے جس کا سب کچھ اسٹیک پر لگ چکا ہے۔
باقیوں کے پاس اول تو گنوانے کو ہے کچھ نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ بہت معمولی، مختصر اور محدود ہے جبکہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے عمران خان کے پاس گنوانے کوبہت کچھ ہے۔ عمران خان کی زندگی جان لیوا محنت سے حاصل کی گئی کامیابیوں سے عبارت ہے جس پر ناکامی اور شکست کا کوئی داغ نہیں۔ ایک عام کرکٹر سے ورلڈ کلاس کرکٹر بننے تک، ورلڈ کپ جیتنے سے لے
کرتقریباً ناممکن کینسر اسپتال بنانےتک، ویرانے میں نمل یونیورسٹی کھڑی کرنے سے اک پٹی ہوئی پارٹی کو بام عروج پرپہنچانے تک، اس کی ہر فتح شانداراور یادگار ہے لیکن حالیہ چیلنج بہت بڑا اور انتہائی خطرناک ہے۔ نہ پاکستان نہ خود عمران خان کوئی ہزیمت افورڈکرسکتاہے کیونکہ آخری جنگ ہی فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اس آخری جنگ میں پسپائی تمام تر گزشتہ فتوحات پر بھی پانی پھیر دےگی
کہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔حسن نثار ایک جگہ مزید لکھتے ہیں کہ عمران خان کی زندگی کا یہ آخری معرکہ یعنی پژمردہ پاکستان کو اس کے پیروں پر کھڑا کرنا، اس بری طرح نوچے کھسوٹے گئے پاکستان کو نئے پر دے کرپھر سے اڑان کے قابل بنانا، اس کی اجڑی معیشت اور اداروں کو پھر سے آباد کرنا، ورلڈ کپ، کینسر اسپتال، نمل یونیورسٹی اور PTIبنانے سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج ہے۔ لیکن مجھے
یہ جنگ جیتنے کے لئے اس کے ’’لشکری‘‘ پوری طرح تیار دکھائی نہیںدیتے۔ چند روز قبل بھی میں نے ’’میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں‘‘ والے شعر کا حوالہ دیا تو ’’بیک آف مائی مائنڈ‘‘ یہی کچھ تھا جوآج نسبتاً ذرا کھل کر بیان کر رہا ہوں۔اس فیصلہ کن بازی کے فیصلہ کن مرحلے میں عمران کو چاہئے اپنے بے ہدف ساتھیوں کو سمجھائے کہ ’’بولیں کم….. کام زیادہ کریں‘‘ خود انہیں بھی اس بات کااحساس ہونا چاہئے کہ نہ وہ، نہ ان کا کپتان، نہ ہمارا پاکستان….. کوئی بھی یہ جنگ، یہ بازی ہارنا افورڈ نہیں کرسکتا!۔