اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں اور سعودی فرمانروا ئوں کی پاکستان کے ساتھ دلچسپی اور وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، شاہ فیصل مرحوم سے لیکر شاہ سلمان تک سعودی عرب کے فرمانروا ہمیشہ پاکستان کو اپنے دل کے قریب سمجھتے رہے، 1965کی پاک بھارت جنگ کے
دوران فرمانروائے سعودی عرب شاہ فیصل مرحوم شاہی خاندان کے ہمراہ مسجد الحرام میں ساری رات پاکستان کی فتح اور حفاظت کیلئے دعا گو رہے، افغان جہاد کے دوران افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے موقع پر ان کی رہائش اور حکومت پاکستان پر پڑنے والے بوجھ کو سعودی عرب نے ہی بانٹا ، مختلف حوالوں کے مطابق ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے سعودی عرب کی جانب سے مالی امداد بھی ملتی رہی، قدرتی آفات ہوں یا حالت جنگ، امن میں سماجی منصوبے ہوں سعودی عرب ہمیشہ پاکستان پر اپنی محبت نچھاور کرتا رہا ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کا کامیاب دورہ کیا ہے۔ اس حوالے سے روزنامہ جنگ کے کالم نگار مرزا اشتیاق بیگ اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں تین روزہ ’’سرمایہ کاری کانفرنس‘‘ امریکہ اور یورپی ممالک کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی یہ خواہش تھی کہ کسی طرح یہ کانفرنس منسوخ ہوجائے یا کامیابی سے ہمکنار نہ ہو۔ یہ کانفرنس سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ذہنی تخلیق تھی جس میں اردن کے شاہ عبداللہ، لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری، متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد المکتوم کے علاوہ متعدد عالمی کمپنیوں کے سربراہان اور سرمایہ کاروں
نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس کے دوران سعودی عرب سمیت مختلف ممالک کے 150 سے زائد اسپیکرز نے خطاب کیا جبکہ کانفرنس میں شریک عالمی سرمایہ کاروں نے سعودی عرب میں 55 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے Pledge کا اعلان کیا۔ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم عمران خان نے کی جو سعودی ولی عہد کی خصوصی دعوت پر ایک بڑے وفد جس میں
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور مشیر تجارت عبدالرزاق شامل تھے، کے ہمراہ شریک ہوئے۔ حالانکہ کانفرنس کا مقصد سعودی عرب میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا مگر اس پلیٹ فارم پر وزیراعظم پاکستان کو بھی یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ کانفرنس میں شریک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کریں۔ اس طرح
وزیراعظم عمران خان نے ’’عالمی سرمایہ کاری کانفرنس‘‘ سے خطاب کے دوران دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا جس کے مستقبل میں یقیناً مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور توقع کی جارہی ہے کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان کا بھی رخ کریں گے۔سرمایہ کاری کانفرنس کے دوران وزیراعظم عمران خان، خادم الحرمین الشریفین سلمان بن عبدالعزیز اور
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان کامیاب ملاقات ہوئی۔ اس دوران وزیراعظم کو یہ نوید سنائی گئی کہ سعودی عرب، پاکستان کو سنگین معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے 6 ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج دے گا۔ بعد ازاں سعودی وزیر خزانہ احمد الجدان اور پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت سعودی عرب 3 ارب ڈالر کی رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان
میں رکھے گا جبکہ پاکستان کو سالانہ 3 ارب ڈالر کا تیل موخر ادائیگی کے تحت فراہم کرے گا اور یہ سہولت 3سال کیلئے ہوگی۔ ان تمام ملاقات اور معاہدے میں پاکستان میں متعین سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی بھی شریک رہے جن کی انتھک کوششوں سے 6 ارب ڈالر کا امدادی پیکیج ممکن ہوا۔یہ تاثر درست نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ سعودی حکام سے ملاقات کے دوران امداد کی
درخواست کی بلکہ عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کی کامیابی اور پاکستان کو امداد کی فراہمی کا سہرا سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کے سر جاتا ہے جنہوں نے عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے قبل ہی اعلیٰ سعودی حکام اور رائل فیملی کو پاکستان کے معاشی بحران کی سنگینی سے آگاہ کیا اور پاکستان کو 6 ارب ڈالر کی امداد کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس بات کا سہرا بھی سعودی سفیر کو جاتا ہے جن کی کوششوں سے 3 ارب ڈالر کی سعودی امداد اسٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں آنا شروع ہوگئی ہے جس سے پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا مل رہا ہے۔ سعودی امدادی پیکیج کے اعلان کے بعد نہ صرف اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھنے میں آئی اور شیئرز کی قیمتوں میں 200 ارب روپے کا اضافہ ہوا بلکہ ڈالر کی قدر 132 روپے کی سطح پر آگئی
جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو میں کمی آئی۔یہ پہلا موقع نہیں بلکہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو برے وقت میں مالی امداد دینے کی روایت تاریخ کا حصہ ہے۔ میں اپنے کالم میں پہلے بھی تحریر کرچکا ہوں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کامیابی میں سعودی عرب نے اہم کردار ادا کیا اور اگر سعودی امداد بروقت فراہم نہ کی جاتی تو ہمارا ایٹمی پروگرام مشکلات کا شکار ہوسکتا تھا۔
اسی طرح 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب عالمی برادری نے پاکستان پر پابندیاں عائد کردیں تو ایسے برے وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کے معاشی استحکام کیلئے مالی امداد کے علاوہ 50 ہزار بیرل تیل یومیہ مفت 3 سال کیلئے فراہم کیا۔ سعودی عرب نے 2014ء میں ایک بار پھر نواز شریف دور حکومت میں پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم بنانے کیلئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا گفٹ بھی دیا۔
اس طرح یہ تیسرا موقع ہے جب برے وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کیلئے خطیر رقم کا پیکیج دیا ہے۔حکومت کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ سعودی عرب سے امداد موجودہ حکومت کی وجہ سے ممکن ہوئی کیونکہ سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات کسی فرد واحد سے نہیں بلکہ پاکستانی عوام سے ہیں جس کا ذکر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کیا۔
انہوں نے سعودی عرب کو دوست ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ سعودی عرب ہمارا انتہائی مخلص اور برادر ملک ہے جس نے ہمیشہ آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، سعودی عرب کی طرف سے دیئے گئے پیکیج پر پورے پاکستان کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور سعودی عرب نے یہ پیکیج حکومت کو نہیں بلکہ پاکستان کی 22 کروڑ عوام کو دیا ہے۔
سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی پاکستان اور سعودی عرب کے مابین کلچر کے تبادلے کیلئے بھی بڑے سرگرم ہیں اور ان کی کوششوں سے سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار گزشتہ دنوں دارالحکومت ریاض میں سعودی وزارت اطلاعات کے تعاون سے سعودی وزارت ثقافت نے پاکستانی فلموں کی ایک نمائش کا انعقاد کیا جبکہ پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کیلئے ریاض میں موجود ہیں۔