اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہارون الرشید اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتےہیں کہ کرنسی کے بحران اور پنجاب میں آئی جی کی تبدیلی نے یہ تاثر اور بھی اجاگر کر دیا ہے کہ حکومت کے سامنے کوئی جامع منصوبہ نہیں، کوئی لائحہ عمل ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ خرابی اندازِ فکر میں ہوتی ہے۔ بہت دیر تک اس بات پر غور کیا کہ وزیراعظم کے
فرز احساس میں مغالطہ کہاں ہے۔ میرا خیال ہے کہ دعویٰ کرنے کی روش میں۔ بار بار ان کا یہ جملہ ذہن میں گونجتا رہا’’میں ٹیکس جمع کر کے دکھائوں گا‘‘غالباََ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک آدمی کے عزم صمیم سے دنیا بدل سکتی ہے۔ وہی نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو کی خود پسندی۔ نواز شریف کہا کرتے کہ وہ قوم کی تقدیر بلد ڈالیں گے۔ بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ تاریخ کے دوام میں زندہ رہیں گے۔ نواز شریف کے حصے میں ایک بدعنوان حکام کی شہرت آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وراثت ان کی صاحبزادی اور داماد نے برباد کر دی۔ ہارون الرشید مزید لکھتے ہیں کہ اب سر اٹھا کر ہم اسلام آباد کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ نعیم الھق ہیں۔ کسی بھی اہم تقریب کے شرکا کی فہرست جب بنائی جاتی ہے تو بعض کے نام وہ قلم زد کر دیتے ہیں۔ اس لئے کہ آنجناب کے وہ مداح نہیں۔ باتیں بنانے والے آدمی کو کوئی پروا اس کی نہیں کہ نقصان کسے پہنچے گا۔ ابھی کل تک اس آدمی کے بارے میں تحقیق کی جا رہی تھی کہ کیا اس نے امیدواروں سے کچھ روپیہ اینٹھا ہے؟یہی شکایت عامر کیانی کے بارے میں تھی، جسے وزارت سونپ دی گئی۔ سیاسی اور انتظامی امور نمٹانے کیلئے عثمان بزدار کو منجھے ہوئے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ خود تو وہ کورا کاغذ ہیں۔ عون محمد ان کے سیاسی مشیر مقرر ہیں۔ سونے پہ سہاگہ۔ ٹوڈرمل روز روز پیدا نہیں ہوتے لیکن ایسےلوگ قحط الرجال کے اس دور میں بھی موجود ہیں،
جن کی صلاحیت اور خلوص پہ اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک آدمی پچھلے دنوں خان صاحب سے ملنے گیا۔ وزیراعظم کو اس نے پریشان اور الجھا ہوا دیکھا۔ ایک ایسا آدمی، جسے بیابان میں راستہ سنجھائی نہ دیتا ہو۔ شاید وہ انہیں کچھ مشورے دیتا لیکن وہاں ایک اور صاحب براجمان تھے،جو ادھر ادھر کی ہانک رہے تھے۔ بیرون ملک سے وہ تشریف لائے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ
وہ بے شمار مارتوں اور خوبیوں کے امین ہیں۔ وزیراعظم اپنے مہمان کے ساتھ بات چیت کا باقاعدہ آغاز کرتے لیکن پھر یہ آدمی مصر ہو گیا کہ وہ ان کے دوست کو چند لمحے عنایت کریں۔ جو باہر کھلے میدان میں ٹھنڈی ہوا کا لطف اٹھا رہا ہے۔ پندرہ بیس منٹ اس میں ضائع ہو گئے۔ اتنے میں وزرائے کرام کا ایک وفد آپہنچا۔ کپتان کی پریشانی کچھ اور بڑھ گئی۔ مہمان عزیز سے انہوں نے کہا:آپ سے ایک
گھنٹے کی مفصل گفتگو مطلوب ہے لیکن اب کیا کروں۔ ہفے کے آخری ایام پر اٹھا رکھتے ہیں۔ اختتام ہفتہ پر وزیراعظم کراچی چلے گئے۔پھر انہیں کوئٹہ جانا پڑا اور اب کی بار لاہور۔ ان صاحب نے مجھ سے کہا: یہ وہ عمران خان نہیں تھا، جسے بارہ پندرہ برس سے میں جانتا ہوں۔ اس کا ذہن منتشر تھا۔ ایسا لگتا تھا ، جیسے کئی دن سے گہری نیند وہ نہیں سویا اور اس کے چہرے پر
بڑھاپے کے آثار تھے۔ نعیم الحقوں، عام کیانیوں اور فواد چوہدریوں میں گھرا ہوا حکمران ژولیدہ فکری کا شکار نہ ہو تو کیا ہو۔ فواد چوہدری، سینیٹر مشاہد اللہ خاں سے حساب چکانے میں لگے ہیں۔ کسی نہ کسی سے الجھتے رہنا موصوف کا مشغلہ ہے ۔ کبھی یہ کام وہ جنرل پرویز مشرف کیلئے کیا کرتے، کبھی آصف علی زرداری کے دفاع میں، اس زمانے میں دوسروں کے علاوہ عمران خان بھی ان کا ہدف ہوا کرتے۔ کپتان پر ایمان لے آئے تو اب ان کی خواہش یہ ہے کہ سارا ملک ان کی بیعت کر لے۔ ایک فصیح، صدی اور بے لچک آدمی۔ وہ نہیں جانتا کہ کاروبار حکومت چلانے والے اپنا وقت ضائع کرنے متحمل نہیں ہوتے۔ ثانیاََ یہ کہ اوروں کو جو زخم لگاتا ہے ویسی ہی یلغار کا اسے بھی سامان کرنا پڑتا ہے۔