اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگار بلال غوری اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو خودداری اور خود انحصاری کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے کشکول توڑنے کو اپنا فرض منصبی سمجھا جاتا ہے۔ سادہ لوح عوام فرط جذبات سے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان نعروں کی گرد بیٹھتے ہی نئی حقیقت منکشف ہوتی ہے
تو لوگ نیا کشکول دیکھ کر ٹھٹھک جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کشکول توڑنے کا مقصد بھیک مانگنے کی روش ترک کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات کے تحت پرانا کشکول چھوٹا پڑ گیا تھا اس لئے اسے توڑ کر نیا کشکول تیار کیا گیا ہے۔ اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ نوزائیدہ حکومت تمام تر خرابیوں اور برائیوں کا ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال دیتی ہے اور قوم کو نہایت درد مندی سے بتایا جاتا ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے۔ ٹرک ڈرائیوروں کی طرح ملک کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والے بھی سب سے پہلے یہ جملہ تحریر کرواتے ہیں ’’چور دے پترا ٹول باکس خالی اے‘‘ پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال یہ بتاتی رہی کہ وہ پرویز مشرف کا ڈالا ہوا گند صاف کر رہی ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ باور کرواتی رہی کہ پیپلز پارٹی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کیا جا رہا ہے اور اب تحریک انصاف کی حکومت بھینسیں بیچ کر ملک چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ گاہے خیال آتا ہے کہ جب لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے تو انہوں نے ملک کو درپیش صورتحال کا ذمہ دار کسے قرار دیا ہو گا؟ ان سے پہلے تو پاکستان کا وجود ہی نہ تھا، عین ممکن ہے وہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور برطانوی استعمار کو برا بھلا کہہ کر وقت گزار لیتے ہوں۔ بہرحال یہ ہمارا قومی طریقہ واردات تو تھا ہی مگر ہمارے ہر دلعزیز کپتان نے اس واردات کا بھی ایک ایسا نیا انداز متعارف کروایا ہے جس پر سب عش عش کر اٹھے ہیں۔