اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی و تجزیہ کار حامد میر اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ان کی تحریک انصاف کے ایک وزیر سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے اس وزیر موصوف سے سوال پوچھا کہا کیا این اے 131لاہور سے ولید اقبال کی جگہ ہمایوں اختر خان کو ٹکٹ دیکر اپنے حامیوں کو مایوس نہیں کیا؟ کیا آپ نے این اے 35بنوں سے مولانا فضل الرحمان کے
سابق ساتھی مولانا نسیم حسن شاہ کو ٹکٹ دیکر علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر دی ہے؟ وزیر صاحب نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا ہم نے این اے 53اسلام آباد سے اپنے پرانے ورکر علی نواز اعوان کو ٹکٹ دیا ہے۔ یہ بات درست تھی۔ میں نے مان لیا کہ اسلام آباد میں ٹکٹ صحیح آدمی کو ملا لیکن جب یہ پوچھا کہ رحیم یار خان میں خسرو بختیار کی خالی نشست پر ان کا بھتیجا امیدوار بن گیا، راولپنڈی میں شیخ رشید کا بھتیجا آپ کا امیدوار بن گیا، مظفر گڑھ میں ایک ایم این اے کی والدہ آپ کی امیدوار بن گئیں، ڈیرہ غازی خان میں آپ کے ایم این اے نے صوبائی اسمبلی کی جو نشست چھوڑی وہاں سے ان کے والد امیدوار بن گئے، پرویز خٹک نے بھی نوشہرہ میں جو صوبائی نشست چھوڑی وہ اپنے بیٹے کو دیدی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنی خالی کردہ صوبائی نشست اپنے بھائی کو دیدی، علی امین گنڈاپور کی خالی کردہ صوبائی نشست ان کے بھائی کو مل گئی اور اگر آپ یہ سب نشستیں جیت جائیں تو کیا یہ موروثی سیاست کی فتح نہیں ہوگی؟ وزیر صاحب پہلے مسکرائے، پھر تلملائے۔ کچھ کہتے کہتے رک گئے پھر بولے میں آپکو چھ مہینے کے بعد ملوں گا۔ میں نے اپنے اس پرانے دوست کو گلے لگایا اور کہا کہ میری باتوں پر ناراض نہ ہوں صرف یہ اعتراف کرلیں کہ آپ لوگ بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرح پاور پالیٹکس کررہے ہیں اور پاور پالیٹکس کرنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو ماضی کے حکمرانوں کا ہوا، لہٰذا اپنے بارے میں غلط فہمی سے نکل آیئے آپ سابق ڈاکوئوں کے ساتھی ہیں۔