اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، تجزیہ کار حامد میر اپنے آج کے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ قومی یکجہتی اسی صورت میں آسکتی ہے جب وزیراعظم صاحب اپوزیشن کے لہجے میں بولنا چھوڑیں گے۔ وہ کہتے ہیں ہم ڈاکو کو ڈاکو نہ کہیں تو پھر کیا کہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر ماضی کے حکمران واقعی ڈاکو تھے تو ان کے ساتھی کیا تھے؟ اگر ان کے ساتھی آپ سے آملیں
تو ہم انہیں کیا کہیں؟ کیا ان کیلئے ’’سابق ڈاکو‘‘ کا لفظ مناسب رہے گا؟ گزارش یہ ہے کہ عمران خان اپنی کابینہ پر نگاہ دوڑائیں۔ یہ ویسی ہی کابینہ ہے جیسی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی کابینہ ہوا کرتی تھی۔ اس کابینہ کا وزیراعظم ماضی کی حکومتوں پر کوئی اخلاقی برتری نہیں رکھتا۔کل تحریک انصاف کے ایک وزیر نے مجھ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر دوسرے دن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہماری حکومت صرف پانچ ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے یہ پانچ ووٹ بی این پی مینگل کے ہیں اور اگر لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بی این پی مینگل حکومت سے نکل جائے گی۔ وزیر صاحب نے کہا کہ 14اکتوبر کو ہم اختر مینگل کے دبائو سے بھی نکل جائیں گے۔ قومی اسمبلی کی گیارہ نشستوں پر ضمنی الیکشن ہورہا ہے اور ہم آسانی سے آٹھ یا نو نشستیں جیت جائیں گے پھر آپ ہمیں اپنے لاپتا افراد یاد نہ کرائیے گا۔ میں نے بڑے احترام سے وزیر صاحب کو کہا کہ لاپتا افراد کیلئے میں نے نہیں عمران خان نے سب سے پہلے آواز اٹھائی تھی میں تو آپ کو صرف آپ کے پرانے وعدے یاد دلاتا ہوں۔وزیر صاحب نے کہا ہمیں صرف چھ مہینے دیدیں۔ ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔ میں نے کہا آپ چھ مہینے لے لیں لیکن یہ تو بتائیں کہ 14اکتوبر کو ضمنی الیکشن میں آپ نے جن صاحبان کو ٹکٹ دیئے ہیں کیا وہ نئے پاکستان کے نمائندے ہیں؟