اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی حامد میر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ شہباز شریف کو نیب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ نیب نے شہباز شریف کی وہ خدمت کی ہے جو کوئی دوسرا اربوں روپے کے عوض بھی نہ کر پاتا۔ جب سے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر رہا ہوئے تھے سازشی مفروضوں کی دنیا میں رہنے والوں کو اس رہائی کے پیچھے کوئی ڈیل نظر آ رہی تھی۔ رہی سہی کسر رانا مشہود نے نکال دی۔
انہوں نے نادان دوست کا کردار ادا کرتے ہوئے اوور ایکٹنگ کر ڈالی، لہٰذا ان کی اس لاہوری رنگ بازی کو اُن کی اپنی ہی جماعت نے مسترد کر دیا لیکن ڈیل کے افسانے تحریک انصاف والوں کی خاموش نگاہوں کی زبان بن کر اقتدار کے اُن ایوانوں میں گردش کرنے لگے جہاں ابھی تک اختیار کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا۔ ڈیل کے ان افسانوں کا مرکزی کردار شہباز شریف کو قرار دیا جا رہا تھا حالانکہ شہباز شریف نے ڈیل کرنا ہوتی تو الیکشن سے پہلے کرتے۔ الیکشن سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے بہت سے نام نہاد مزاحمتی کرداروں نے کہاں کہاں کس کس کو تاریک راتوں میں مل کر نواز شریف کے بارے میں کیا کچھ گوش گزار کیا یہ راز نہیں رہے گا۔ کل نہیں تو پرسوں یہ باتیں منظر عام پر ضرور آ جائیں گی اور یہ راز بھی ضرور کھلے گا کہ شہباز شریف چاہتے تو بڑی آسانی سے وزیر اعظم بن سکتے تھے وہ تاریک راتوں میں ہونے والی ملاقاتوں میں وہی بات کرتے تھے جو دن کے اُجالے میں کرتے تھے۔ اندھیرے میں کچھ اور باتیں اور اجالے میں کچھ اور باتیں کرنے کے ماہر مسلم لیگیوں نے شہباز شریف کو قربانی کا بکرا بنا رکھا تھا۔ یہ صاحبان اندھیرے میں شہباز شریف اور اُجالے میں نواز شریف کے موقف کی حمایت کرتے تھے۔ جب ان سے کہا جاتا کہ آپ لوگ ڈبل گیم کیوں بند نہیں کرتے تو یہ سارا ملبہ شہباز شریف پر ڈال کر کہتے کہ جس دن شہباز شریف اپنی غلامی کی زنجیریں توڑیں گے اُس دن ہم بھی نواز شریف کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کر دیں گے
لیکن شہباز شریف نے واضح کر دیا کہ عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی کی مخالفت اپنی جگہ لیکن میں کبھی بھی اپنے بڑے بھائی کے خلاف بغاوت نہیں کروں گا۔ شہباز شریف سے کہا گیا اعلانیہ بغاوت نہ کریں مسلم لیگ (ن) کی فیصلہ سازی کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لیں۔ مقصد صرف اتنا تھا کہ نااہل نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کے اجلاسوں سے دور رکھیں لیکن شہباز شریف نے یہ بات بھی نہیں مانی۔ 13جولائی کو نواز شریف پاکستان واپس آئے اور لاہور ایئرپورٹ پر اُن کا کوئی تاریخی استقبال نہ ہو سکا تو ایک دفعہ پھر کہا گیا کہ شہباز شریف نے ڈیل کر لی تھی۔
ڈیل کے افسانے اُس وقت بھی ختم نہ ہوئے جب 25جولائی کے الیکشن میں تحریک انصاف اکثریتی جماعت بن کر سامنے آ گئی۔ چھ ستمبر کو یوم دفاع کے دن شہباز صاحب وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ جی ایچ کیو میں یوم شہداء کے پروگرام میں نظر آئے تو ڈیل کے افسانہ طرازوں نے جھوم جھوم کر اپنے پرانے دعوے یاد دلائے اور پھر جب نواز شریف کو رہائی ملی تو شہباز شریف کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا۔ شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمانی روایات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے سے انکار کر دیا
لیکن اپوزیشن لیڈر کے بارے میں اُن کی اپنی ہی جماعت کے مہربان ایسی باتیں کر رہے تھے کہ گمان گزرتا تھا کہ وہ دن رات کوئی نہ کوئی ڈیل کرتے رہتے ہیں۔شہباز شریف کی اپنے بڑے بھائی سے وفاداری اور محبت کو مشکوک ثابت کرنے کے لئے روزانہ افسانہ تراشنے والوں کے لئے یہ خبر کسی جھٹکے سے کم نہ تھی کہ شہباز شریف کو نیب نے حراست میں لے لیا ہے۔ جیسے ہی شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تو تحریک انصاف کے ایک جغادری ایم این اے نے مجھ سے پوچھا کہ وہ خادم اعلیٰ کو کب چھوڑیں گے؟ میں نے بلاتوقف جواب دیا کہ وہ اُنہیں بالکل نہیں چھوڑیں گے۔ایم این اے صاحب میری بات ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔
فرمانے لگے کہ چیئرمین نیب کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی باہمی صلاح مشورے سے لائی تھی لہٰذا نیب شہباز شریف کو چند گھنٹوں میں چھوڑ دے گی۔ اگلے دن نیب کو دس دن کا ریمانڈ بھی مل گیا اور یوں شہباز شریف کی ذات پر سے ایک ایسی ڈیل کا داغ خودبخود دھل گیا جو ڈیل کبھی نہ ہوئی تھی۔ نیب شہباز شریف کے لئے رحمت کا فرشتہ بن کر آئی۔ شہباز شریف کی گرفتاری کا سب سے زیادہ فائدہ نواز شریف کو ہوا ہے۔ شہباز شریف نے اپنے بھائی کے خلاف براہ راست بغاوت کئے بغیر بڑے تواتر کے ساتھ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی نہ کی جائے اور مفاہمت کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔
نواز شریف بار بار کہتے تھے کہ یہ محاذآرائی ہم نے شروع نہیں کی ہم نے صرف مزاحمت کی ہے لیکن شہباز شریف مزاحمت کے طریقہ کار سے اتفاق نہ رکھتے تھے۔ 25جولائی کے الیکشن کے بعد شہباز شریف نے اداروں سے محاذ آرائی نہ کرنے کی گردان کم کر دی لیکن وہ نجی محفلوں میں بدستور نواز شریف سے یہ گزارش کرتے تھے کہ محاذ آرائی سے گریز کیا جائے۔شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد اب یہی کہا جائے گا کہ نواز شریف کا بیانیہ ٹھیک اور شہباز شریف کا بیانیہ غلط تھا۔ نواز شریف کے بیانیے کو گھر بیٹھے بٹھائے پذیرائی مل گئی اور شہباز شریف بھی راتوں رات سرخرو ہو گئے۔ گستاخی معاف شہباز شریف کو نیب کی مذمت نہیں کرنی چاہئے بلکہ شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
یہ وہ ادارہ ہے جسے 1997ء میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں قائم کیا گیا۔ اُس زمانے میں اسے احتساب بیورو کہا جاتا تھا اب یہ نیب کے نام سے مشہور ہے۔ اس نیب نے سیف الرحمان کے بنائے گئے مقدمات کے ذریعے آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ سے مرد حُر بنا دیا تھا۔اس سیف الرحمان کو میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے مرد حُر کے قدموں میں گر کر معافی مانگتے دیکھا ہے۔ پھر اسی نیب کو پرویز مشرف نے سیاستدانوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے استعمال کیا۔ آج وہ مشرف پاکستان واپس آنے کی جرات نہیں رکھتا۔ اب نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کر کے اُن کی ذات کو ہر قسم کی ڈیل کے الزامات سے پاک کر دیا ہے۔ نیب کل بھی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتا تھا اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ابھی تک نئے پاکستان میں کچھ نیا نظر نہیں آ رہا۔ پرانے پاکستان کی پرانی روایتوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور تحریک انصاف کی قیادت یاد رکھے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ سیاسی انتقام کی جو فصل آج بوئی جا رہی ہے وہ کل کو آپ نے کاٹنی ہے۔