ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں اب تک کی سب سے بڑی ڈیل، اب دونوں سیاسی جماعتیں اہم رہنماؤں کو نااہلی سے بچانے کے لیے ملکر کیا کر سکتی ہیں؟ ناقابل یقین خبر سنا دی گئی

datetime 27  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے پاس اہل ہونے ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر آرٹیکل 62 ایف ون میں ترمیم کے لیے قانون منظور کروا لیں، یہ بات ایک قانونی ماہر احسن بھون نے کہی، ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق قانونی ماہر احسن بھون نے کہا کہ تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیرترین کی سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست مسترد ہونے کا یقین تھا کیونکہ ایک آدھ کیسز ایسے ہوتے ہیں

جس میں نظرثانی اپیل ملزم کے حق میں چلی جاتی ہے اور پھر ملزم کو رعایت مل جاتی ہے۔ معروف صحافی صابر شاکر اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیرترین آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت نااہل ہوئے ہیں ان کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے، ان کے سیاست کے دروازے بند ہو چکے ہیں ان کوچاہیے اپنے بیٹے کو سیاست میں لے کر آئیں۔ معروف صحافی نے اس موقع پر کہا کہ جہانگیر ترین کے پاس واپسی کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ن لیگ کے ساتھ مل کر اسمبلی میں تاحیات نااہلی کے خلاف ترمیم لے کر آئیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں عمران خان کی اہلیت اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔عدالت لارجر بنچ بنانے کی حنیف عباسی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جہانگیر ترین کی تاحیات ناہلی کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔دوران سماعت ریماکرس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ دینے کے بعد نظرثانی پر 8 منٹ میں فیصلہ دیا گیا،کتنے ارب روپے پاکستان سے باہر لے کر گئے ہیں؟ اب ایک مہم چلی ہوئی ہے کہ پیسے بیرون ملک سے واپس لائے جائیں،اتنے بڑے لیڈر نے پیسے واپس کرنے کے لیے کیا سوچا ، کمپنی میں شیئرز خریدے ہم ازخود نوٹس لے سکتے ہیں،ہم مقدمہ ازسرنو نہیں سن رہے،نئے دستاویزات نظرثانی میں دائر نہیں کیے جاسکتے، اب آپ جھانسہ دے رہے ہیں، کمپنی جہانگیر ترین نے بنائی، کیا لندن فلیٹس کی آف شور کمپنی فرشتے بنا کر چلے گئے،آف شور کمپنی فرشتوں نے تو نہیں بنائی،

ہم نے دستاویزات بنانے کے لیے کئی مواقع فراہم کیے،مہربانی کر کے ازسرینو مقدمہ نا لڑیں اجازت نہیں ملے گی،پیسے چھپوانے کی ڈیوائس بنا لی،باہر فلیٹ آپ نے بنائے، تعمیر خود کروائی، رہتے وہاں ہیں،آپ نے ظاہری شناخت چھپا کر تفصیلات ظاہر نہیں کیں،ہم جہانگیر ترین کی ٹرسٹ ڈیڈ کو درست تسلیم نہیں کر رہے، آپ خود اپنے دلائل میں واضح نہیں ہیں،کمپنی کس نے بنائی، ایچ ایس بی سی نے آف شور کمپنی بنائی،کمپنی کیسے بنتی ہے اس کا پہلے بھی پوچھا تھا، سارے کا سارا فراڈ کیا گیا،ایک آفس ہولڈر نے دھوکہ دہی کر کے پیسہ باہر بھجوایا۔

اگر آرٹیکل 184 کے تحت کسی شخص کے خلاف مقدمات ہیں تو آپ کی درخواست خارج ہو جائے گی، ہمیں وہ قانونی وجہ بتائیں کہ کیوں لارجر بنچ تشکیل دیں،میں نے بھی ایک فیصلے میں یہی لکھا ہے،عدالت کا احترام کریں، عدالت کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں،دھیمی آواز میں بولیں، جو بات ابھی کر رہے ہیں کیا مرکزی کیس میں یہ بات کی گئی؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل جہانگیر ترین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ پرجوش نہ ہوں۔ ایک بڑی رقم کو پاکستان سے باہر لے جایا گیا۔عام شخص کی حیثیت سے آف شور کمپنی کے اثرات مختلف تھے۔

ایک آفس ہولڈر کے لیے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہیپاکستانی قانون میں اثاثے ظاہر کرنا لازم ہے،جہانگیر ترین نے اثاثے ظاہر نہیں کیے،ہم نے نیا قانون طے کیا ہے،متعدد مقدمات میں اثاثے چھپانے پر فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں، اکرم شیخ نے کہاکہ ہم نے لارجر بینچ بنانے کی درخواست دی ہوئی ہے،مجھے عمومی القدر پر جانا ہے،سپریم کورٹ نے کہا یہ وہ مقدمہ نہیں جس میں سختی سے قانون کا اطلاق کیا جائے، پاناما نظرثانی فیصلہ ہوا،ڈان اخبار جن کے بانی قائداعظم تھے انہوں نے فل کورٹ بنانے کی درخواست کی، شیخ رشید احمد کیس میں ایک جج صاحب نے تمام فیصلوں کا حوالہ دیا،

8 ماہ مقدمہ سنا گیا وقت دیا جائے،اقلیتی فیصلہ نہیں بلکہ اس میں سفارش چیف جسٹس کو کی گئی،شیخ رشید احمد کیس میں 7 سوالات اٹھائے گئے، قانون تمام افراد کے لیے ایک ہونا چاہیے، وکیل جہانگیر ترین نے عدالت کو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 50 کروڑ روپے فیصلے میں لکھا ہوا ہے،میرے موکل نے ٹرسٹ کے حوالے سے دستاویزات دی ہیں، براہِ راست ٹرسٹ کے ساتھ میرے موکل کا کوئی تعلق نہیں ہے، آف شور کمپنی کے شیئرز ایچ ایس بی سی سے ای ایف جی میں منتقل ہوئے، پہلے آپ نے کہا تھا آپ کو نہیں پتا۔ابھی میرے ذہن میں نام آیا۔ اس وقت میرے پاس نہیں تھے، عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر اور شیئر ہولڈر بارے تفصیلات نہیں بتائی گئی، ای ایف جی آف شور کمپنی کی شیئر ہولڈر تھی،پہلے ٹرسٹ بنی، پھر ٹرسٹ نے جائیداد خریدی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…