اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)تحریک انصاف نواز شریف دور میں کئے گئے ایل این جی معاہدے میں کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی اور حقیقت کیا نکلی، نواز حکومت نےایل این جی معاہدے میں 75 ارب روپے کی بچت کی ۔بلومبرگ نیوز کی رپورٹ میں ایسے انکشافات سامنے آگئے کہ جان کر تحریک انصاف والے حیران رہ جائینگے۔ روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے
ایل این جی فروخت کرنے والے دنیا کے بڑے اداروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکر معاہدے کے پہلے 10 سالوں میں 6سو ملین ڈالرز (پاکستانی 75 ارب روپے) کی بچت کی۔ دو ہفتے قبل ریاستی آئل مارکیٹنگ کمپنی کیجانب سے سینیٹ کمیٹی میں پیش کی گئی اور امریکی جریدہ بلومبرگ نیوز کی جانب سے جائزہ لی گئی رپورٹ بتاتی ہے کہ کس طرح قطر سے 2016 کا معاہدہ ہوا جو دنیا کا سب سے بڑا ایل این جی فراہم کرنے والا ملک ہے۔ رپورٹ سے توانائی کے ایسے معاہدوں پر بھی روشنی پڑتی ہے جن میں نقصانات کا شدید خطرہ تھا اور جنہیں خصوصی طور پر بند دروازوں کے پیچھے طے کرلیا گیا اور عوام سے مخفی رکھا گیا۔ چونکہ قطر نے ایل این جی کی قیمتوں میں کمی سے انکار کردیا اور دو سال تک مذاکرات میں تعطل کے بعد پاکستان نے اقدامات کا سوچا اور 2015 کے آخر میں اوپن مارکیٹ میں لیوریج چاہی اور علی الاعلان دو بڑے ٹینڈرز میں 120 جہازوں کی مانگ کی جس کے بعد رائل ڈچ شیل پی ایل سی اور بی پی پی ایل سی سمیت ایل این جی فراہم کرنے والوں نے بولیاں لگاناشروع کردیں۔ رپورٹ کے مطابق جس دوران قطر گیس آپریٹنگ کمپنی سے مذاکرات جاری تھے اسی دوران زیادہ سے زیادہ بولی لگانے والوں اور بہترین قیمتوں کے آپشن لانے کیلئے ٹینڈر جاری کیا گیا۔ اس حکمت عملی سے قطر گیس کمپنی کی جانب سے قیمتیں کم کرنے میں مدد ملی
جس سے 610 ملین ڈالرز کی بچت ہوئی۔ پاکستان نے قطر کو سب سے کم بولی کی اطلاع دی جو سوئٹزرلینڈ کی گنور گروپ لمیٹڈ کمپنی کی جانب سے دی گئی تھی جسے مشرق وسطیٰ کے سپلائرز نے برابر کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ پاکستان اب بھی گنور کمپنی سے ایل این جی خریدتا ہے اور اسے پہلے ٹینڈر کا خطاب دیتا ہے لیکن دوسرے ٹینڈر میں جو حجم یا مقدار پاکستان نے مانگی تھی
وہ 25 فیصد بڑھ کر آخری قطر معاہدے میں ختم ہوگئی۔محسن عزیز، سینیٹ کمیٹی کے سربراہ جو اس وقت اس معاہدے کی تفتیش کررہے ہیں، نے پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں ان اطلاعات کی تصدیق کی تھی۔ پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی اور قطر گیس کے حکام نے رائے دینے کیلئے کی گئی درخواستوں پر ردعمل نہیں دیا۔ گنور اور بی پی نے رائے دینے سے معذرت کرلی۔ شیل کا کہنا ہے کہ
وہ پاکستان میں ٹینڈر پر براہ راست رائے دئیے بغیر مستقبل میں ایل این جی معاہدوں کی توقع رکھتی ہے۔ قطر سے معاہدہ جو بالآخر 3 اعشاریہ 75 ملین میٹرک ٹن سالانہ کے حساب سے 15 سال تک جاری رہے گا، اس سے پاکستان کا ایل این جی خریدنے والے ملک کے طور پر ظہور ہوا ۔ ملک نے درآمدات کا رخ اس وقت کیا جب اس کی خود کی انحطاط پذیر پیداوار سے کچھ فیکٹریاں بند ہوگئیں
اور بلیک آؤٹ ہوگیا۔بلومبرگ کی ویسل ٹریکنگ ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں سال 2016 کے آغاز ہی سے درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے بعد پاکستان عالمی طور پر اگست میں ایل این جی درآمد کرنے والا ساتواں سب سے بڑاملک بن گیا۔ قانون سازوں کی جانب سے حالیہ سالوں میں ریاستی ایجنسیوں اور غیرملکی ایل این جی سپلائرز کے درمیان مذاکرات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کچھ قانون سازوں کا دعویٰ ہے کہ شفافیت کی کمی سے ممکنہ کرپشن کو چھپایا جارہا ہے۔