اسلام آباد(آن لائن) 9 ارب ڈالر کی فوری ضرورت کے باوجود حکومت کے کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف سے بچنے کے لاکھ جتن اپنی جگہ لیکن اربوں ڈالر کے مقروض ملک کی امیر عوام کا امپورٹڈ لائف سٹائل پورے زور وشور سے جاری ہے 33 ارب ڈالر سے زائد کے تجارتی خسارے کے باوجود پاکستانی عوام سالانہ 30 ارب روپے کا امپورٹڈ پنیر اور مکھن ، 18 ارب روپے کے چٹخارے دار مصالحے ، 60 ارب کی چائے،
93 ارب روپے کے موبائل فون اور 138 ارب روپے کی امپورٹڈگاڑیوں سمیت مجموعی طور پر سالانہ 678 ارب روپے کی اشیاء درآمد کرتے ہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق غریب ملک کے امیر عوام کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور امپورٹڈ طرز زندگی اور نئی حکومت کی سادگی اختیار کرنے کی کوششیں ایک دوسرے سے متصادم نظر آ رہی ہیں ، اربوں ڈالر کے مقروض ملک اور 33 ارب ڈالر سے زائد کا سالانہ تجارتی خسارے کے باوجود عوام اپنی شان و شوکت اور معاشرے میں اپنا مقام بڑھانے کا ذریعہ سمجھی جانے والی درآمدی اشیاء کا استعمال کم کرنے راضی نہیں ہے ۔ زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی مقامی طور پر وافر مقدار میں پید اہونے والی اشیاء بھی بڑی مقدار میں درآمد کی جا رہی ہیں اور مجموعی طور پر ان کا حجم 678 ارب روپے سا لانہ تک جا پہنچا ہے درآمدی اشیاء کے استعمال کے حوالے سے کسی حد تک جا پہنچا ہے درآمدی اشیاء کے استعمال کے حوالے سے کسی حد تک احساس کمتری کا شکار پاکستانی عوام سالانہ 30 ارب روپے کا امپورٹڈ مکھن اور پنیر ہڑپ کر جاتے ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے پکوانوں کی شان بڑھانے اور زبان کے چٹخارے پورے کرنے کے لئے سا لانہ 18 ارب روپے کے مصالحے چھڑکتے ہیں اربوں روپے کے سگریٹ کے علاوہ 60 ارب روپے کی چائے پی جاتی ہے۔ جبکہ ہر شخص ایک سے زیادہ موبائل فون اپنے ہاتھ میں رکھ کر درآمدات میں93 ارب روپے کے سالانہ اضافے کا سبب بنتے ہیں
اور سونے پر سہاگہ 138 ارب روپے کی چمچماتی امپورٹڈ گاڑیاں بھی شاہانہ طرز زندگی اور دوسروں پر دھاگ بٹھانے کے لئے درآمد کی جاتی ہیں۔ نئی حکومت نے سادگی اختیار کر کے اور اخراجات میں کمی سے قومی خزانے کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس وقت 9 ارب ڈالر کی فوری ضرورت کے باوجود آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھلانے سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن غریب ملک کی امیر عوام کا امپورٹڈ اسٹائل تمام کوششوں کے آ ڑے آ رہا ہے۔