فاروق بندیال اور اسکے ساتھی ساری رات الماریوں میں موجودپرفیوم کی بوتلیں ادکارہ شبنم پر کیوں انڈیلتے رہے؟پولیس سے بھی پہلے جائے وقوعہ پر پہنچنے والے صحافی نے وہاں کیا دیکھا ؟40سال بعد شرمناک انکشاف سامنے آگیا

4  جون‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اداکارہ شبنم ریپ کیس 1978میں پیش آیا مگر آج 2018میں اچانک اس کی بازگشت اس وقت سنائی دی جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس مقدمے میں سزا یافتہ فاروق بندیال کو تحریک انصاف کا پرچم پہنا کر اپنی پارٹی میں شامل کر لیا۔ اداکارہ شبنم ریپ کیس چالیس برس قبل کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتا رہا، وہ شبنم کے عروج کا زمانہ تھا ۔

نامور کالم نگار رضی الدین رضی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ اداکارہ شبنم نے عدالت میں فاروق بندیال اور اس کیس کے دیگر ملزمان کی شناخت کی تھی ۔ مقدمہ اور اس قبیح جرم کی تمام تفصیلات اور احوال اس زمانے کے معروف اخبارات میں تفصیل کے شائع ہوتا رہا۔ اداکارہ شبنم کی طرف سے ایس ایم ظفر بطور وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔ جب کہ فاروق بندیال کی جانب سےبھی وکیل صفائی کے طور پر اس زمانے کے چوٹی کے وکیل عاشق حسین بٹالوی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ عاشق حسین بٹالوی کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ اسی زمانے میں نواب محمد احمد خان قتل کیس میں وکیل استغاثہ تھے۔ اس کیس کے مرکزی ملزم سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اداکارہ شبنم نے بیان ریکارڈ کرانے سے قبل بائیبل پر حلف دیا، عدالت نے ان سے پوچھا کہ وہ کس زبان میں بیان ریکارڈ کرائیں گی تو شبنم نے کہا میں قومی زبان اردو میں ہی بیان دوں گی، اخبارات کے مطابق شبنم نے بتایا کہ ملزمان میرے بیٹے رونی کے اغوا اور قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے اور میں بیٹے کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھی۔ ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میرے مشہور مقدمے میں اس کیس کی مکمل تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے خصوصی فوجی عدالت میں‌اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن شبنم نے بہت حوصلے کے ساتھ ملزمان کی نشاندہی کی اور جرح کا بھی سامنا کیا۔

ملزمان میں فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، طاہر تنویر بھنڈر جمیل احمد چٹھہ اور جمشید اکبر ساہی شامل تھے جو عدالت میں موجود تھے۔ جب شبنم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان ملزمان کو پہچانتی ہیں تو انہوں نے کہا میں انہیں کیوں نہ پہچانوں گی جنہوں نے میرا سکون برباد کر دیا۔عدالت میں بیان دیتے ہوئے اداکارہ شبنم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ واردات کی تفتیش کے

دوران انکشاف ہوا کہ اداکارہ زمرد کے گھر پر بھی ایسی ہی واردات ہوئی تھی۔ زمرد کا گھر بھی شبنم کے گھر کے قریب ہی تھا ،اور اس میں ‌بھی یہی لوگ ملوث تھے، اداکارہ زمرد خوفزدہ ہو کر خاموش ہو گئی تھیں لیکن شبنم نے مقدمے کی پیروی کی اور تمام دھمکیوں اور دباؤ کا بھی سامنا کیا۔ سینئر صحافی جمیل چشتی اس زمانے میں عباس اطہر کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ آزاد کے لئے کام کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ میں پہلا صحافی تھا جو واردات کے بعد شبنم کے گھر پہنچا۔ گھر میں سامان بکھرا پڑا تھااور شبنم کی حالت غیر تھی۔ روبن گھوش کا ململ کا کرتا پھٹا ہوا تھا۔ شبنم اپنے بیٹے کو گود میں لئے رو رہی تھیں اور وہ بار بار بے ہوش ہو جاتی تھیں‌۔ شبنم کے بیڈ روم میں پرفیوم کی بے پناہ خوشبو تھی جو ملزمان شبنم پر انڈیلتے رہے تھے۔ جمیل چشتی کے بقول ان کی موجودگی میں ہی

اداکار محمد علی بھی شبنم کے گھر پہنچے اور انہوں نے انتظامیہ اور پولیس سے رابطے کئے۔ جمیل چشتی کے بقول ایک ملزم جمشید اکبر ساہی کا تعلق پولیس سے تھا، اس لئے ملزمان پولیس کی نقل و حرکت سے بھی واقف تھے۔ اس زمانے میں پولیس صبح ساڑھے چار بجے تک گشت کیا کرتی تھی۔ ملزمان نے واردات کے بعد ساڑھے چار بجنے کا انتظار کیا اور پولیس گشت ختم ہونے کے

بعد اطمینان سے فرار ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد ازاں ملزمان کی گرفتاری بھی اسی جمشید ساہی کی وجہ سے عمل میں آئی۔ واردات کے دوران جو زیورات لوٹے گئے ان میں اداکارہ شبنم کا ایک قیمتی ہار بھی تھا۔ ساہی واردات کے تیسرے روز وہی ہار ایک طوائف کو دینے کے لئے بازار حسن گیا اور وہاں پہلے سے موجود مخبروں کی نشاندہی پر دھر لیا گیا۔ملزمان کو فوجی عدالت سے

سزائے موت سنا دی گئی۔ اس فیصلے کے بعد ملزمان کے لواحقین نے شبنم پر بھر پور دباؤ ڈالا۔ بندیال فیملی، ججز،چیف سیکریٹری اور دیگر اسٹیبلشمنٹ کا پریشر بہت زیادہ ہوا تو ضیاء الحق نے بھی گھٹنے ٹیک دئیے۔ اداکارہ شبنم کا گھرانہ اس وقت سخت ترین اذیت سے گزر رہا تھا، انہوں نے اپنے بیٹے کو امریکہ بھیج دیا۔ اب وہ صرف مجرموں کو سزا دلوانا چاہتی تھی۔ آخر شبنم کو

انہیں معاف کر نا پڑا۔ شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے جس پر صدر مملکت سے اپیل کی تھی۔ شبنم اور رابن گھوش سے معافی نامے پر دستخط کروائے گئے اور سزائے موت کو معمولی سزا دس سال قید میں بدل دیا گیا۔ چالیس سال بعد دہرائی جانے والی اس کہانی سے لیکن ایک بات جو ایک بار پھر واضح‌ ہو کر سامنے آئی یہ ہے کہ مارشل لاء ہو یا جمہوریت، اس ملک کی اصل حکمران وہ اشرافیہ ہے جسے ہم ایسٹیبلشمنٹ کا نام دیتے ہیں۔ یہ اے کلاس اشرافیہ سزا یافتہ ہو کربھی ہمیشہ معزز کہلاتی ہےاور اسے جیل میں بی کلاس ملتی ہے۔ ان کے حصے کی سزا جھیلنے کے لئے ہم اور آپ موجود ہیں، ہم جو اس ملک کے سی کلاس شہری ہیں‌۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…