اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان میں اس وقت انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو کچھ فکر نہیں بس ایک ہی فکر ہے کہ کسی طرح اقتدار حاصل کرنا ہے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ اقتدار کی اس دھینگا مشتی میں ہماری سیاسی جماعتیں قومی ذمے داریوں کو بھی بھول گئی ہیں۔معروف کالم نگار سہروردی نے انپے کالم میں مزید لکھا کہ بہت مشکل اور ایک لمبی جنگ کے بعد پاک فوج ملک میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ بلوچستان میں ہونے
والی سازش کو ناکام بنایا گیا ہے۔ ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک توڑا گیا ہے۔ کراچی میں را کا نیٹ ورک توڑا گیا ہے۔ امن کی روشنی نظرآنا شروع ہوئی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے امن کے خلاف دوبارہ سازشیں شروع ہو گئی ہیں۔ دشمن نے پاکستان کے امن کو دوبارہ ٹارگٹ کرتے ہوئے ایک گریٹ گیم شروع کر دی ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی بے حسی اپنی جگہ قائم ہے۔ جس طرح جب ماضی میں دشمن نے پاکستان کے امن اور استحکام کے خلاف ایک سازش تیار کی تھی اور ہماری سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی رہی تھیں، اسی طرح آج بھی ان نئی سازشوں کے خلاف سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔یہ بات قابل دید ہے کہ ہمارے حساس اداروں نے بلوچستان میں ہونے والی شورش کا قلع قمع کر دیا ہے۔ دشمن نے مشرقی پاکستان کی طرز پر بلوچستان میں وہی گیم کھیلنے کی کوشش کی تھی لیکن اس بار ہماری فوج اور ہمارے حساس ادارے چوکس تھے۔ انھوں نے دشمن کی ہر چال کو ناکام بنایا ہے۔ ایک طرف بلوچستان میں دشمن کے ایجنٹوں کے خلاف آپریشن کیا گیا ہے دوسری طرف ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی حکمت عملی پر بھی کام شروع کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی سیاسی محرومیوں کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس ساری کاوش میں بھی فوج اور حساس ادارے تنہا نظر آتے رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اس کام میں اپنا حصہ نہیں ڈالا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں بلوچستان کی حکومت وہاں کی سینیٹ کی نشستوں میں تو دلچسپی رکھتی ہیں لیکن بلوچستان میں امن میں ان کی دلچسپی نظر نہیں آتی ہے۔آج بھی ہم بلوچستان کے امن کی تعریف کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس ناراض بلوچوں کو قومی سیاست میں قومی دھارے میں لانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ بلوچ نوجوانوں کے محفوظ مستقبل کے لیے ہماری حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ جو فراری ہتھیار پھینک رہے ہیں
ان کے لیے بھی ہماری سیاسی حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ نہایت دکھ کی بات ہے کہ ہماری سیاسی حکومتیں اور سیاسی قیادت ملک میں امن قائم کرنے اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنے حصہ کا کام نہیں کرتیں اور جب یہ کام بھی فوج اور حساس ادارے کرتے ہیں تو اس پر اعتراض بھی کرتی ہیں۔اسی طرح کراچی کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ کراچی میں امن صرف اور صرف آئی ایس آئی اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کیوجہ سے ممکن ہوا ہے۔ ورنہ دشمن نے تو
کراچی میں پنجے گاڑ لیے ہوئے تھے۔ دشمن کا ایجنٹ لندن بیٹھ کر کراچی کا ڈان بن گیا ہوا تھا۔ اس کی ایک کال پر کراچی بند ہو جاتا تھا۔بھتہ خوری تھی۔ ٹارگٹ کلنگ تھی۔ اور پاکستان کا معاشی دارالخلافہ دشمن کے قبضہ میں جا چکا تھا۔ ہماری سیاسی قیادت بھی دشمن کے ایجنٹ کے سامنے سرنگوں تھی۔ لیکن آج کراچی میں صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔کراچی کا امن بحال ہو چکا ہے۔ دشمن کا قبضہ ختم ہو گیا ہے۔ نام نہاد ڈان کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔ لیکن ہماری سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے پاس
کراچی کے لیے بھی کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کراچی کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ بس کراچی ان کے قبضہ میں آجائے۔ سب کو اپنی سیٹوں کی فکر ہے۔ کسی کو کراچی کی فکر نہیں۔ کیا اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ملکر کراچی کے لیے ایک مشترکہ سیاسی حکمت عملی نہیں بنانی چاہیے۔ کراچی کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ تا کہ کراچی کے عوام میں اعتماد آئے۔
ان کے سامنے ایک مشترکہ متبادل آئے۔ انھیں نظر آئے کہ سب سیاسی جماعتیں کراچی کے لیے سنجیدہ ہیں۔ لیکن کراچی کے حوالے سے بے حسی بھی افسوسناک ہے۔اسی طرح پاک فوج اور آئی ایس آئی نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی ہے۔ ٹی ٹی پی کے قبضہ سے نہ صرف قبائلی علاقوں کا قبضہ چھڑایا گیا ہے۔ بلکہ ان کا نیٹ ورک مکمل طور پر تباہ کیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ دہشت گرد اپنے ریڈیو اسٹیشن چلا رہے تھے۔ انھوں نے اپنی متوازی حکومت اور نظام قائم کر لیا ہوا تھا۔
لیکن آج ان سے یہ قبضہ چھڑا لیا گیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے۔ ایک ایک انچ پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے۔دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک تباہ ہو گئے ہیں۔ دہشت گردوں کی اکثریت ماری گئی یا پکڑی گئی ہے یا کچھ بھاگ گئے ہیں۔ لیکن جو بھاگ بھی گئے ہیں ان کا نیٹ ورک ختم ہو چکا ہے۔ لیکن صورتحال ویسی ہی ہے ہماری سیاسی جماعتیں قبائلی علاقوں میں امن کے قیام کے بعد جس سیاسی عمل کی ضرورت ہے اس کی اہمیت کا احساس نہیں کر رہی ہیں۔
پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جان بوجھ کر خود کو ان علاقوں سے دور رکھ رہی ہیں۔ وہ اس بات کا احساس ہی نہیں کر رہی ہیں کہ اگر وہ اپنا کام نہیں کریں گی تو دشمن کو دوبارہ اپنا گندا کھیل کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ہماری سیاسی جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی افسوسناک ہے۔کس کو نہیں معلوم کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دوبارہ امن خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھارت اور افغانستان سے چلائے جا رہے ہیں،
فنڈنگ وہاں سے آرہی ہے۔ دشمن ایک مرتبہ پھر اپنا گندا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہماری سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔ کیوں پاکستان کی سیاسی قیادت فاٹا میں پاکستان کا پرچم لے کر کھڑی نہیں ہوتی اور وہاں کے عوام کو اپنے ساتھ نہیں جوڑتی۔میں سوچتا ہوں کہ قبائلی علاقوں کو سیاسی طور پر قومی دھارے میں شامل کرنے میں کیا فوج رکاوٹ ہے۔ کون قبائلی علاقوں میں اپنے مفاد کی سیاست کر رہا ہے۔ کس کو ذاتی مفاد پاکستان کے مفاد سے زیادہ عزیز ہے۔ کون فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کی مخالفت کر رہا ہے۔ کیوں ہماری سیاسی جماعتوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ ان کے آپس کے سیاسی اختلافات ملک کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں۔ کیوں ہم فاٹا کے لیے ایک مشترکہ سیاسی حکمت عملی نہیں بنا سکتے۔ کیوں فاٹا سیاسی جماعتوں کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔اگر امن لانے کے بعد اس امن کو قائم رکھنے کے لیے سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا نہیں کریں گی تو یہ کام کون کرے گا۔ یہ بات کیوں نہیں سمجھی جا رہی کہ پنجاب کا مان بھی فاٹا کے امن سے مشروط ہے۔ پنجاب کی سیاست بھی فاٹا کی سیاست سے منسلک ہے۔ اگر فاٹا میں سیاسی عمل بند ہو گا تو پنجاب اور سندھ میں بھی سیاسی عمل بند ہو جائے گا۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ ایک تو اپنے حصہ کا کام بھی نہیں کرتی ہیں اور جب وہ کام کوئی اورکرے تو اعتراض بھی کرتی ہیں۔ لیکن آج پاکستان میں ہونے والی ساری سیاسی سرگرمیوں کا سہرا فوج اور آئی ایس آئی کے سر ہے کہ انھوں نے امن قائم کیا، دشمن کو ناکام کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی اور آج ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔