اسلام آباد(این این آئی) پاکستان کا دوست ملک چین پاکستان کی اہم بندر گاہ، گوادر کو تیزی سے ترقی دے کر اسے دنیا کی سب سے بڑی سفری اور مال سباب کی منتقلی کی ایک تنصیب میں تبدیل کر رہا ہے۔ دونوں فریق بندر گاہ کے اس شہر کو اربوں ڈالر کی ایک دو طرفہ اقتصادی راہداری کے ایک راستے کی شکل دینے کی توقع کر رہے ہیں،جسے دونوں اتحادی ملکوں کو باہم منسلک کرنے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے،
گہرے پانیوں کی بندر گاہ گوادر تجارتی اعتبار سے دنیا کے تین انتہائی اہم علاقوں، تیل سے مالا مال مشرق وسطی، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کی گوادر بندرگارہ پر رپورٹ کے مطابق بیجنگ، گوادر کو، سی پیک کے حصے کے طور پر ترقی دے رہا ہے۔گوادر کی اہم اسٹریٹجک بندرگاہ کو ڈیوٹی فری اورفری اکنامک زون میں تبدیل کرنا گذشتہ کافی عرصہ سے پاکستان کا خواب رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود اپنی اس بندرگاہ سے دبئی کا مقابلہ کر سکےگا؟ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق پاکستان اور اس کا ہمسایہ ملک چین ایران کے قریب اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع اس بندرگاہ کو علاقائی، تجارتی، صنعتی اور جہاز رانی کا مرکز بنانے کے خواہشمند ہیں۔یہ بندرگاہ( چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک کا حصہ ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو مشرق وسطیٰ تک محفوظ اور مختصر ترین تجارتی راستہ حاصل ہو جائے گا اور پاکستانی معیشت بھی اس سے فائدہ حاصل کر سکے گی۔ رپورٹ کے مطابق فی الوقت پاکستان کے اس ”نئے دبئی”’ کی اصل دبئی سے صرف ایک مماثلت ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں بھی پانی کی شدید کمی ہے۔ ایک مقامی صحافی ساجد بلوچ کا تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’گذشتہ تین برسوں سے یہاں بارش نہیں ہوئی۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ ”گوادر کی پیاس” میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی بڑا کردار ہے۔
ان کے مطابق اس وقت گوادر کو پانی کی قلت سمیت پانی کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ گوادر کے مضافات میں واقع آنکارا کور ڈیم میں پانی کے ذخائر دو برس پہلے ہی خشک ہو گئے تھے اور اب پانی دور دراز کے علاقوں سے لایا جا رہا ہے۔دور سے لایا جانے والا کچھ پانی تو اس قدر آلودہ ہوتا ہے کہ اس سے ہیپاٹائٹس جیسی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ عبدالرحیم کے مطابق ’’زیر زمین پانی بھی نہیں نکالا جا سکتا کیونکہ
زیر زمین پانی نمکین ہو چکا ہے۔‘‘ فی الحال گوادر کی آبادی ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے لیکن اندازوں کے مطابق 2020ء تک یہ آبادی بڑھ کر 5 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ گوادر میں معاشی سرگرمیوں سے پہلے مقامی آبادی کا انحصار زیادہ تر ماہی گیری پر تھا اور حکومت کے ان بڑے منصوبوں سے انہیں ابھی تک براہ راست کم ہی فائدہ پہنچا ہے۔پانی کی شدید قلت پر قابو پانے کے لیے چینی ماہرین کی مدد سے اس علاقے میں
سمندری پانی صاف کرنے کے دو پلانٹ تعمیر کیے گئے ہیں۔ چھوٹا پلانٹ روزانہ 2 لاکھ گیلن پینے کا صاف پانی فراہم کر سکتا ہے جبکہ حال ہی میں تکمیل پانے والا دوسرا پلانٹ ڈیوٹی فری زون میں تعمیر کیا گیا ہے اور یہ روزانہ تقریبا 4 لاکھ گیلن صاف پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسری جانب پاکستانی فوج بھی متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ کی مدد سے اس علاقے میں پانی صاف کرنے کا ایک پلانٹ تعمیر کر رہی ہے۔
یہ پلانٹ اس علاقے کو روزانہ 44 لاکھ گیلن پانی فراہم کر سکے گا۔ پاکستانی فوج کے مطابق علاقے میں بہتر سہولیات اور صاف پانیکی فراہمی سے مقامی سطح پر حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی فوج نے مقامی آبادی کے دل جیتنے کے لیے یہاں ماہر ڈاکٹر بھی تعینات کیے ہیں، جو مقامی ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں۔ایک نئی سڑک سے بندرگاہ کو مکران ساحلی ہائی وے سے جوڑ دیا جائے گا جبکہ گوادر کا
زیر تعمیر ایئر پورٹ مستقبل میں پاکستان کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہو گا۔ گوادر میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے چائنہ پاور کمپنی 3 سو میگا واٹ کا ایک پلانٹ بھی لگا رہی ہے جبکہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ بندرگاہ کے سکیورٹی افسر منیر احمد کا کہنا تھاکہ گزشتہ دو برس کے دوران گوادر کی سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے ، اگر حالیہ عرصے میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھا جائے تو
”نیا دبئی”’ تعمیر کرنے کا خواب ایک عشرے یا اس سے کچھ زائد عرصے میں شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔دریں اثنا بیجنگ گوادر کو سی پیک کے حصے کے طور پر ترقی دے رہا ہے، تفصیلات کے مطابق پاکستان کا دوست ملک چین پاکستان کی اہم بندر گاہ، گوادر کو تیزی سے ترقی دے کر اسے دنیا کی سب سے بڑی سفری اور مال سباب کی منتقلی کی ایک تنصیب میں تبدیل کر رہا ہے۔ دونوں فریق بندر گاہ کے اس شہر کو
اربوں ڈالر کی ایک دو طرفہ اقتصادی راہداری کے ایک راستے کی شکل دینے کی توقع کر رہے ہیں،جسے دونوں اتحادی ملکوں کو باہم منسلک کرنے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے،گہرے پانیوں کی بندر گاہ گوادر تجارتی اعتبار سے دنیا کے تین انتہائی اہم علاقوں، تیل سے مالا مال مشرق وسطی، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کی گوادر بندرگارہ پر رپورٹ کے مطابق بیجنگ، گوادر کو،
سی پیک کے حصے کے طور پر ترقی دے رہا ہے۔ دونوں ملکوں نے 2015 میں ا س پراجیکٹ کو چین کی ابتدا ئی طور پر لگ بھگ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان میں، مشترکہ طور پر شاہراہیں، ریلویز، پاور پلانٹس، کمیونیکیشنز اور صنعتی زونز کی تعمیر کے لیے شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد گوادر کو مغربی چین کے خشکی سے گھرے علاقے سے منسلک کرنا ہے تاکہ اسے پاکستان کے راستے عالمی منڈیوں تک
رسائی کا ایک نسبتا چھوٹا اور محفوظ راستہ مل سکے۔گوادر پورٹ کے چیئرمین دوستین خان جمال دینی کا کہنا ہے کہ گوادر کے تعمیراتی اور دوسرے پراجیکٹس پر لگ بھگ 65 فیصد لیبر فورس پاکستانی ہے اور چینیوں کی تعداد صرف تین سو سے کچھ ہی زیادہ ہے۔انہوں نے گوادر میں ایک عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمارت جو آپ دیکھ سکتے ہیں، جو زیر تعمیر ہے، پہلے سے تیار چینی ٹیکنالوجی سے تیار کی گئی ہے۔
میرا نہیں خیال کہ ہم اس وقت اتنی بڑی عمارت کو دو یا تین ماہ میں تعمیر کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کام کے ساتھ ٹیکنالوجی بتدریج پاکستان میں منتقل ہو رہی ہے اور اس سے پاکستان میں چینیوں کی موجودگی مزید کم ہو جائے گی۔عہدے دار توقع کر رہے ہیں کہ گوادر پانچ برسوں کے اندر اندر جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا جہاز رانی کا مرکز بن جائے گا جہاں سالانہ 13 ملین ٹن سامان کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت ہو گی۔اور ان کا کہنا ہے کہ 2030 تک یہ بندر گاہ 400 ملین ٹن تک کا سامان ہینڈل کر سکے گی۔