اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)زینب قتل کیس میں بریک تھرو بننے والے بابا رانجھا نے نجی ٹی وی رپورٹر کے سامنے منہ کھول دیا،پولیس کی تفتیش میں عمران کو پہچان کر بتا دیا تھا کہ یہ ہمارے محلے کا بندہ ہے مگر اس کا نام نہیں جانتا تھا، پولیس والوں نے دس دن تھانے میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا، بابا رانجھا پولیس کے ظلم کی داستان سامنے لے آیا، پولیس نے میڈیا کو جو کمرہ زینب کیساتھ زیادتی اور قتل میں استعمال ہونے کی جگہ کے طور پر بتایا وہ بابا رانجھا کےبوڑھے والد کاکمرہ نکلا،
اہل علاقہ نے بابا رانجھا اور عمران کے آپس میں کوئی تعلق نہ ہونے کی گواہی دیدی، پولیس کی کور سٹور ی کا بھید کھل کر سامنے آگیا، انعام کی رقم اور کریڈٹ کے چکر میں ڈرامہ رچایا گیا، کیس پر گہری نظر رکھنے والے صحافتی حلقوں نے دال میں کالا ہونے کی نشاندہی کر دی۔ تفصیلات کے مطابق زینب قتل کیس میں پولیس نے مشتبہ سمجھ کر ایک شخص کو گرفتار کیاتھا جس کی نشاندہی بابا رانجھا کے نام سے ہوئی تھی جسے قاتل عمران کا قریبی ساتھی بتایا جاتا رہا ہے۔ نجی ٹی وی رپورٹر جب حقائق جاننے کیلئے علاقے میں پہنچا تو بابا رانجھا کے ساتھ بات چیت کے دوران اہم انکشافات سامنے آئے ۔ بابا رانجھا جو کہ اب پولیس نے قاتل عمران کی گرفتاری کے بعد رہا کر دیا ہے نے نجی ٹی وی رپورٹر کو بتایا کہ پولیس نے مجھے مشتبہ سمجھ کر اٹھایا اور تفتیش کیلئے تھانے لے گئی جہاں تفتیشی ٹیم کے لوگوں نے مجھے زینب کے اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی جس میں عمران کو دیکھ کر میں نے پہچان لیا کہ یہ ہمارا محلے دار ہے مگر مجھے اس کا نام نہیں پتا تھا جس پر پولیس نےو الوں نے مجھے گھر نہیں جانے دیا اور 10دن تھانے میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ بابا رانجھا کے ساتھ گفتگو کے دوران انکشاف ہوا کہ پولیس نے میڈیا کو جس کمرے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عمران زینب کو اغوا کے بعد یہاں لے کر آیا اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا
وہ دراصل بابا رانجھا کے گھر کا ایک کمرہ تھا جو کے بابا رانجھا کے بوڑھے والد کے زیر استعمال ہے ۔ بابا رانجھا ایک غریب رکشہ ڈرائیور ہے ۔اس نے نجی ٹی وی رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا عمران سے کوئی تعلق نہیں تھا میں نے تو سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر اس کی بطور محلے دار نشاندہی کرتے ہوئے پولیس کو اہم کلیو فراہم کیا۔ اہل محلہ نے نجی ٹی وی رپورٹر سے بات کرتے
ہوئے بتایا کہ پولیس نے بابا رانجھا کے گھر کے کمرے کو جائے واردات بتایا ہے جبکہ حقیقت میں ایسانہیں یہ بابا رانجھا کے والد کا کمرہ ہے اوریہ لوگ اتنے غریب ہیں کہ اس کے والد کے پاس سونے کیلئے چارپائی تک نہیں ۔ نجی ٹی وی رپورٹر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کیونکہ زینب کے قاتل کی گرفتاری میں مدد دینے والے کو ایک کروڑ روپےانعام کا اعلان کیا گیا تھا جس کا حقدار دراصل بابا رانجھا بنتا ہے
مگر پولیس والوں نے انعام حاصل کرنے کے چکر میں بابا رانجھا کو شریک ملزم قرار دے کر اس کے گھر کے ایک کمرے کو جائے واردات بنا دیا۔ بابا رانجھا اور نجی ٹی وی رپورٹر کے انکشافات کے بعد کیس پر گہری نظر رکھنے والے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ کمرہ جس کی نشاندہی پولیس جائے واردات کے طور پر کر رہی ہے وہ واردات میں استعمال نہیں ہوا تو پولیس نے ابھی تک
جائے واردات کی نشاندہی کیوں نہیں کی ۔ اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوئوں کو پولیس کے اس عمل سے تقویت ملتی نظر آرہی ہے ۔ پولیس جائے واردات کو تاحال یا تو ڈھونڈ نہیں سکی یا پھر اس کو چھپایا جا رہا ہے ۔ بابا رانجھا کے گھر کے کمرے کو اصل جائے واردات چھپانے کیلئے کورسٹوری کے طور پر میڈیا کے سامنے لایا گیا ہے۔