سوات (مانیٹرنگ ڈیسک) خواڑہ خیلہ سوات میں شمولیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیرمین پشتونخوا میپ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ آزادی ایکٹ جسمیں ہندونستان کی تقسیم دو ملکوں میں کی گئی اس میں فاٹا کا ذکر کسی ملک میں نہیں۔ فاٹا کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار ان کو دیا گیا جو نہ فاٹا سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ انکو فاٹا کے بارے میں کچھ پتہ ہے۔ اگر کوئی ان سے مخالفت کرے تو ان پر دیگر لیبل لگائے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 1935 ایکٹ ارٹیکل 311 میں انگریز لکھتا ہے کہ پشتون قبائل (فاٹا) اور آزاد ریاستیں (امب، دیر، چترال،سوات) اور بلوچ قبائل (قلات، خاران، مکران، لسبیلہ) یہ آزاد ہیں، یہ برما، برطانوی ہندونستان سمیت کسی ملک کا حصہ نہیں۔ پھر 1946 میں لارڈ ویول نے لنڈی کوتل میں قبائیلوں کے ایک جرگہ سے کہا کہ میں اپنی حکومت کی طرف سے یہ پیغام پہنچانے آیا ہوں کہ آپ آزاد ہیں، تقسیم ہند کا تعلق آپ سے نہیں ہوگا۔ پھر تقسیم ہند میں علاقوں کے لئے گئے ناموں میں فاٹا کا ذکر نہیں تھا۔ فاٹا پر آئین کے صرف 4 ارٹیکل لاگو ہوتے ہیں۔ یہاں باقی 180 ارٹیکل لاگو کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہاں عدالتی نظام میں مالدار شخص غریب کے نام پر مکان، زمین اپنے نام کروا سکتا ہے، کسی کو بے عزت کرکے آسانی سے معاشرے میں پھر سکتا ہے۔ مگر فاٹا میں اسکا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ انھوں نے کہا کہ فاٹا میں انجنئر، ڈاکٹر، جج، جرنیل سب ہیں۔ انکی کمیٹی بنائی جائے جو دو تین ماہ میں اپنے لئے بہترین فیصلہ کر لیں گے۔ اگر اپ نے انکی بات مان لی تو اچھا اگر نہیں تو انکے ساتھ ہم بھی مجاہدین ہیں۔ جلسے سے محمودخان اچکزئی نے خطاب میں نیشنلزم (قوم دوستی) کے متعلق کہا خدا نے جس جس قوم کیلئے پیغمبر بھیجا اسی قوم کی اپنی زبان میں کتاب بھیجی۔ یہاں ہمیں لوگ کہتے ہیں کہ قوم اور زبان کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ مجھے خدا نے پشتون پیدا کیا،
پشتونخوا وطن کے مجھ پر کئی حقوق ہیں جو مجھے نبانے پڑینگے۔ انھوں نے کہا کہ قران میں خدا فرماتے ہیں کہ میں نے موسی علیہ سلام سے کہا کہ جاو فرعون کے غلامی سے اپنے قوم کو نکالو۔ غلامی سے نجات حاصل کرنا موسی علیہ سلام کی سنت ہے، کوئی اس سنت پر عمل کرے نہ کرے ہم ضرور کریں گے۔پارٹی رکنیت کے آئین کے حوالے سے کہا کہ پشتونخوا میپ کا رکن مجھ سمیت تب تک کوئی نہیں بن سکتا جب تک وہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ (قانون پر) عمل پیرا نہ ہو۔انھوں نے وسائل سے مالامال پشتونخوا وطن کے عوام کی حالت کے بارے میں کہا کہ دنیا جہاں میں آدمی 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتے ہیں،انکو مراعات دی جاتی ہے۔ ہمارے وطن کے 60 سالہ عمر رسیدہ افراد مزدوری و چوکیداری کیلئے مسافری کرنے پر مجبور ہیں۔