اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہاہے کہ وزارت خزانہ کی ذمہ داری اللہ ، رسولﷺ کے بعد پارٹی اور وزیراعظم کی امانت ہے، استعفیٰ کے حوالے سے پارٹی اور وزیراعظم جو فیصلہ کریں گے وہ منظور ہوگا،معیشت کے حوالے سے کنفیوژن پھیلا ئی جارہی ہے، حکومت نے گزشتہ چار سال کے دوران معیشت کے ہر شعبہ میں ترقی کی،پہلی سہ ماہی میں ٹیکس موصولات 765ارب روپے جوگزشتہ سال کی نسبت 20فیصد زیادہ ہیں،
حکومت کی توجہ بلند اقتصادی شرح کا حصول ہے ،وزیراعظم نے برآمدگان کیلئے پیکج میں مزید توسیع کردی ہے ،مشنری کی درآمد ملک کیلئے بہتر ہے اس سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، روان مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ترسیلات زر، برآ مدات میں اضافہ ہوا ہے،رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوا،آج زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم پوزیشن میں ہیں ، گردشی قرضہ 390ارب ہے،حکومت سیکیورٹی اور معیشت کی بہتری کیلئے کام کر رہی ہے ، سرکاری قرضے کے حوالے سے بھی کنفیوژن پھیلایا جا رہا ہے ،پاکستان کی ڈیٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 61.6فیصد ہے جو ترقی پذیر ممالک میں کم ترین ہے،معیشت کا حجم پہلی دفعہ 300ارب ڈالر سے بڑھ گیا ، امید ہے دسمبر تک لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی،گزشتہ چار سالوں کے دوران حاصل کئے گئے معاشی فوائد کو ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کو مزید بہتر کرنا چاہیے،ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں،معیشت کے حوالے سے عالمی بینک نے غلط اعداد وشمار پیش کئے ، عالمی بینک نے کہا ہے کہ اعدادوشمار درست کر کے پیش کر ے گا،تین چار ماہ میں جو ماحول بنا ہے حکومت کو اس پر تشویش ہے، اس کو بہتر کرنے کیلئے حکومت کوشش کر رہی ہے،جاری کھاتے کا خسارہ چیلنج ہے اس کو دور کرنے کے لئے کو شاں ہیں۔
آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے حوالے سے حکومت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ،تین چار ماہ میں جو ماحول بنا ہے اس کو بہتر کرنے کیلئے حکومت کوشش کر رہی ہے ۔پیر کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل ،وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر خان ، چیئرمین ایف بی آرطارق پاشا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے معیشت کے حوالے سے سوالات موصول ہو رہے تھے ۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں حکومت کا مالیاتی ڈسپلن کو برقرار رکھنا ترجیح تھی ، 2017میں مالیاتی خسارہ ،مشنری اور دیگر ضروری اخراجات کی وجہ سے بڑھ گیا تھا،صوبوں نے اپنا سرپلس توقع سے کم رکھا ،پہلی سہ ماہی میں ٹیکس موصولات 765ارب روپے جوگزشتہ سال کی نسبت 20فیصد زیادہ ہیں ،بجٹ خسارہ 324ارب تھا جو گزشتہ سال پہلی سہ ماہی میں 430ارب تھا ۔حکومت کی توجہ بلند اقتصادی شرح کا حصول ہے اس سے ملکی معیشت مضبوط ہوگی ،
حکومت 6فیصد کی اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے ، مہنگائی کنٹرول میں ہے ، شرح سود 5.75فیصد ہے جو کم ترین ہے ،گزشتہ سال وزیراعظم نے برآمدگان کیلئے 180ارب کا خصوصی پیکج دیا تھا جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں ، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں برآمدات میں 10.8فیصد کا اضافہ ہوا ،پہلی سہ ماہی میں برآمدات 5.17ارب ڈالر ہیں جبکہ گزشتہ سال یہ 4.6ارب ڈالر تھی ۔ درآمدات کو کم کرنے اور برآمدات کو بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں ،
وزیراعظم نے برآمدگان کیلئے پیکج میں مزید توسیع کردی ہے ،مشنری کی درآمد ملک کیلئے بہتر ہے اس سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ۔ ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ،پہلی سہ ماہی میں ترسیلات زر 4.79ارب ڈالر رہے ۔غیر ملکی سرمایہ کاری میں رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوا ،دو ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری 457ملین ڈالر رہی جو گزشتہ سال 179ملین ڈالر تھی ۔ جاری کھاتے کا خسارہ دو ماہ میں 2.6ارب ڈالر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ کنفویژن پھیلایا جا رہا ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران معیشت نے ترقی نہیں کی جو درست نہیں ، گزشتہ چار سال میں معیشت نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے ،ترسیلات زر 19.13ارب ڈالر تک پہنچ گئے ،ٹیکس محصولات میں 72فیصد ہوا اور1946سے بڑھ کر 3600ارب سے زائد ہوگئے ۔مالیاتی خسارہ 8.8فیصد سے کم ہو کر 5فیصد سے زائد ہے ،ترقیاتی اخراجات میں اضافہ ہوا، زرعی شعبے کو قرضہ ڈبل ہوگیا ، زرمبادلہ کے ذخائر 2013میں 4ارب ڈالر تھے ،
آج زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم پوزیشن میں ہیں ، اسٹیٹ بینک کے پاس 14ارب ڈالر کے ذخائر ہیں جو تسلی بخش ہیں ،ایک دہائی تک توانائی کے شعبے کو نظرانداز کیا گیا، 18گھنٹے لوڈشیڈنگ کے باوجود 503ارب کا گردشی قرضہ تھا ،امن وامان کی صورتحال خراب تھی ،پاکستان میں اب دہشت گردوں کے کوئی ٹھکانے موجو دنہیں ہیں ، سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے پاک فوج نے بہترین کام کیا ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات حکومت ادا کر رہی ہے ، جنگ کے اخراجات کے حوالے سے امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ تقریباًختم ہو چکا ہے ،
حکومت سیکیورٹی اور معیشت کی بہتری کیلئے کام کر رہی ہے ، سرکاری قرضے کے حوالے سے بھی کنفیوژن پھیلایا جا رہا ہے ، کل قرضہ جی ڈی پی کا 61.6فیصد ہے ،معیشت کا حجم پہلی دفعہ 300ارب ڈالر سے بڑھ گیا ،لوڈشیڈنگ کاخاتمہ کیا جا رہا ہے ، نومبر،دسمبر تک امید ہے لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ آج بجلی کی اتنی پیداوار کے باوجود گردشی قرضہ390ارب کے قریب ہے ۔اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہت بہتر ہے ، گزشتہ چار سالوں کے دوران حاصل کئے گئے معاشی فوائد کو ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کو مزید بہتر کرنا چاہیے ،
ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں بہتری آئی ہے ،فائلرز کی تعداد میں تقریباً پانچ لاکھ کا اضافہ ہوا اور یہ 12لاکھ ہیں ، ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں ، سٹاک مارکیٹ 2013کے مقابلے میں بہت بہتر پوزیشن میں ہے ،پاکستان کی ڈیٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 61.6فیصد ہے جو ترقی پذیر ممالک میں کم ترین ہے ۔انہوں نے کہا پاکستان کے حوالے سے عالمی بینک نے غلط اعداد وشمار پیش کئے ،سیکرٹری خزانہ نے امریکہ میں عالمی بینک سے اس حوالے سے تحفظات پیش کئے ،ان کو یقین دلایا گیا کہ عالمی بینک اعدادوشمار درست کر کے پیش کر ے گا ،
عالمی بینک نے اعدادوشمار کو عالمی فارمولے کے تحت نہیں پیش کیا ۔انہوں نے کہا تین چار ماہ کے دوران ملک کے حوالے سے مکس سگنلز گئے ہیں اس کو دورکرنا چاہیے اور بہتری کے لئے مل کر کوششیں کرنی چاہیءں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سارے ادارے پاکستان کے ہیں ان کو متنازع نہیں بنانا چاہیے ۔وزارت خزانہ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے حوالے سے صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ کی ذمہ داری اللہ اور رسولﷺ کے بعد پارٹی اور وزیراعظم کی امانت ہے اس حوالے سے پارٹی اور وزیراعظم جو فیصلہ کریں گے وہ منظور ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے معیشت کے حوالے سے بیان پر وزیرداخلہ احسن اقبال نے جواب دے دیا تھا ۔انہوں نے کہا آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے حوالے سے حکومت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ،تین چار ماہ میں جو ماحول بنا ہے اس کو دور کرنے کیلئے حکومت کوشش کر رہی ہے ۔