لاہور( این این آئی) سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ایوان اقبال میں منعقدہ آل پاکستان وکلاء میں کنونشن میں پانامہ کیس کے فیصلے کے حوالے سے 12سوالات اٹھائے ۔ نواز شریف نے کہا کیا آج تک ایسا ہوا ہے کہ وٹس ایپ کالز پر پراسرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟،کیا آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی ؟،
کیا اس سے پہلے قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کے لیے خفیہ ایجنسیوں کے ارکان کو ذمہ داری سونپی گئی ؟،کیا آ ج تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایسی جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی ہے ؟کسی درخواست میں دبئی کی کمپنی اور تنخواہ لینے کی بنیاد پر نا اہلی کی استدعا کی گئی ؟کیا کوئی بھی عدالت واضح ملکی قانون کو نظر انداز کر کے مطلب کے معنی تلاش کرنے کے لیے ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے ؟کیا ہماری 70سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں 4فیصلے سامنے آئے ہوں ؟،کیا کبھی وہ جج صاحبان بھی پھر سے حتمی فیصلے والے بینچ میں شامل ہوئے جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں ؟،کیا ان جج صاحبان کو بھی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور نہ اس پر بحث سنی ،نہ سماعت کے مرحلے میں شریک ہوئے ؟کیا پوری عدالتی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ نہ صرف نیب کی کارروائی بلکہ ٹرائل کورٹ کی مانیٹرنگ کے لیے بھی سپریم کورٹ کے ایسے جج کا تقرر کردیا جائے جو پہلے ہی خلاف فیصلہ دے چکا ہو ؟کیا سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ کے نیچے ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کر سکتا ہے ؟کیا نیب کو اپنے قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کے لیے کوئی عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے ؟۔آپ وکلاء سے بہتر کون جانتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے تحت اندراج مقدمہ کے لئے کس عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے ۔
22اے ، بی کے تحت یہ اختیار ایڈیشنل جج کی عدالت کو ہے لیکن یہاں براہ راست عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا ۔ نیب کے قانون کے مزین کردہ اصولوں کے مطابق ریفرنس فائل ہونے کے لئے پہلے شکایت کنندہ کی تصدیق ، پھر انکوائری ، انوسٹی گیشن کا پورا ہونا لازمی ہے اور اس کے لئے کسی بھی شہری کو ہر مرحلے پر عدالت عدالیہ سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے یہ صرف چند سوالات ہیں جو ہر پاکستانی پوچھ رہا ہے ۔