مجھے صحافت میں پچیس سال ہو گئے ہیں‘ میں نے ان پچیس برسوں میں یہ سیکھا ہے کہ کسی سیاستدان کو کوئی بڑا بول نہیں بولنا چاہیے‘ ہمیشہ عاجزی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان میں جب بھی جس نے بھی بڑا بول بولا‘ وہ اللہ کی پکڑ میں آ گیا‘ آپ تین تازہ ترین بڑے بول اوران بڑے بولوں کا نتیجہ دیکھ لیجئے‘ پہلا بڑا بول آصف علی زرداری نے بولا تھا ،اس بڑے بول کے بعد کیا ہوا پوری پیپلز پارٹی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور مستقل رہنے کا دعویٰ کرنے والے زرداری صاحب مستقلاً باہر رہنے پر مجبور ہوگئے۔
آپ اب دوسرا بڑا بول ملاحظہ کیجئے ، آپ دیکھ لیجئے میاں صاحب بھی اس بڑے بول کے چار سو پینتیس دن بعد پکڑ میں آ گئے‘ منہ اور مسور دونوںان کے گلے پڑ گئے اور تیسرا بڑا بول مریم نواز صاحبہ نے چھ جولائی کو بولا تھا،روک سکتے ہو تو روک لو، روکنے والے تو شاید نہ روک سکتے لیکن قدرت نے انہیں روکنا شروع کر دیا ہے چنانچہ میری تمام سیاستدانوں بالخصوص حکمرانوں سے درخواست ہے آپ توبہ کریں‘ معافی مانگیں اور اپنے آپ سے یہ عہد کریں کہ آپ زندگی میں کبھی دوبارہ بڑا بول نہیں بولیں گے‘ عزت‘ رزق اور اقتدار صرف اور صرف اللہ کی امانت ہے‘ یہ جسے چاہے‘ یہ دے دے اور یہ جس سے چاہے جب چاہے واپس لے لے‘ ہم دعویٰ کرنے والے کون ہوتے ہیں۔حکومت کے پاس صرف دو آپشن ہیں‘ پہلا آپشن میاں نواز شریف کرسی چھوڑ دیں‘ یہ احسن اقبال‘ شاہد خاقان عباسی یا پھر خرم دستگیر کو وزیراعظم بنائیں‘ حکومت پانچ سال پورے کرے‘ سینٹ کے الیکشن ہوں‘ حکومتی منصوبے مکمل ہوں اور اگلے الیکشن ہو جائیں‘ دوسرا آپشن‘ یہ ان سازشوں اور ان سازشیوں کو سامنے لائیں جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘ بہترین اور سوٹ ایبل آپشن کیا ہے؟