کراچی (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل اور سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ عمران خان اور اس کی جماعت سے نظریاتی اختلاف ہے ۔ جب تک وہ پاکستان کو سیکولر بنانے کا نظریہ تبدیل نہیں کرتے ، ان سے اتحاد نہیں ہو سکتا ہے ۔ پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے اور پاکستان کا آئین اسلامی ہے ۔ آئین کی تمام شقوں پر عمل ہونا چاہئے ۔ جمعیت علمائے اسلام کے تحت 7 سے 9 اپریل تک پشاور میں جمعیت کی قیام کے 100 سال کی مناسبت سے تاریخی اجتماع ہو گا ۔ جنرل راحیل شریف کو 39 ممالک کی فوج کا سربراہ بنانا پاکستان کے لیے اعزاز ہے ۔ ہمیں خوش ہونا چاہئے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو جامعہ انوار العلوم مہران ٹاؤن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے رہنما قاری محمد عثمان ، علامہ راشد محمود سومرو ، مولانا عبدالکریم عابد ، مولانا محمد غیاث ، مولانا عبدالحق عثمانی ، قاری غلام رسول ناصر ایڈووکیٹ اور دیگر بھی موجود تھے ۔ قبل ازیں جمعیت اسلام کورنگی کی مجلس عاملہ اور دیگر علاقائی اور ضلعی عہدیداران کا اجلاس ہوا ۔
جس میں پشاور میں ہونے والے اجتماع کے حوالے سے تیاریوں کا جائزہ لیا گیا ۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ جمعیت کے 100 سال مکمل ہونے پر 7 سے 9 اپریل تک پشاور میں عالمی اجتماع ہو گا ، جس میں 30 سے 40 لاکھ افراد کی شرکت متوقع ہے ۔ اس اجتماع سے امام کعبہ ، اسلامی دنیا کی اہم شخصیات ، مسلم ممالک کے سفراء ، اور دیگر اہم شخصیات خطاب کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بعض قوتیں سیکولر بنانا چاہتی ہیں ۔ اس اجتماع سے ہم انہیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اس کی بقاء اور سلامتی اسلامی فلاحی ریاست پر ہی منحصر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا پلی بارگیننگ کا قانون کالا قانون ہے ۔ جس کے تحت کرپٹ عناصر کو تحفظ ملتا ہے اور محدود عرصے کے لیے کرپٹ عناصر کو نااہل قرار دیا جاتا ہے ۔
نئے آرڈی ننس کے مطابق کرپٹ عناصر اب نہیں بچ سکیں گے اور وہ تاحیات نااہل ہوں گے ۔ اس آرڈی ننس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ اہم عہدوں پرجو لوگ آکر کرپشن کرتے ہیں اور وہ اپنی پارٹیوں کے ذمہ دار بنتے ہیں اور بیرون ملک جاکر آف شور کمپنیاں کھولتے ہیں ، قرضے معاف کرتے ہیں ۔ ایسے عناصر کا بے رحمانہ احتساب ہونا چاہئے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے قومی ایکشن پلان اور فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت صورت حال انتہائی پیچیدہ تھی اور سب کی مشاورت سے یہ قانون بنایا گیا ۔ اب بھی حکومت ضرورت محسوس کرے تو پارلیمنٹ سے رجوع کرے اور تمام عوامی قوتوں کو اعتماد میں لے ۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت وہ صورت حال نہیں ہے ، جو دو سال پہلے تھی ۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ قومی ایکشن پلان کا استعمال بلاامتیاز اور تمام مجرموں کے خلاف کرنے کے بجائے ایک مخصوص لابی نے اس کا رخ مدارس اور اہل مذہب کی طرف موڑ دیا ۔ یہ ناانصافی پر مبنی ہے ۔ جنرل راحیل شریف کے 39 ممالک کے فوج کا سربراہ بننے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ یہ ایک اعزاز ہے ہمیں خوش ہونا چاہئے ۔ ناراض کیوں ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ۔ اس کا قانون آئین اسلامی ہے ۔ سندھ اور پنجاب میں جو امتیازی قوانین بنے تھے وہ آئین اور قرآن و سنت متصادم تھے اس لیے ان کے خلاف احتجاج ہوا ۔
آئین میں صرف 62,63 کو نہ دیکھا جائے بلکہ پورا آئین دیکھا جائے ۔ آئین کے مطابق صوم صلوۃ کا پابند آدمی ہی ممبر بن سکتا ہے ۔ آئین کے مطابق عوام نے حکومت کو پانچ سال مینڈیٹ دیا ہے ۔ یہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے ۔ ہم مسلم لیگ (ن) کے مرکز میں اتحادی ضرور ہیں ۔ مگر ہماری اپنی پالیسیاں اور اپنا منشور ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام کرپشن دہشت گردی ، ملک دشمنی اور دیگر آئین اور قانون مخالف سرگرمیوں سے ہمیشہ محفوظ رہی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے عمران خان سے ہمارا ذاتی اختلاف نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف ہے وہ ایک سیکولر ملک کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور فحاشی فروغ دے رہے ہیں ۔ جب تک وہ اس سے اجتناب نہیں کریں گے ۔ ان سے اتحاد ممکن نہیں ۔