ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

قوی اسمبلی میں بدترین ہنگامہ، نئی تاریخ رقم

datetime 14  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(این این آئی)قوی اسمبلی میں اپوزیشن نے وزیراعظم نوازشریف کیخلاف تحریک استحقاق ایوان میں نہ لانے پرشدیداحتجاج کیا ،اپوزیشن ارکان نے سپیکرڈائس کاگھیراؤ کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اورحکومت کیخلاف شدیدنعرے بازی کی،جس سے ایوان ہنگامہ آرائی کاشکار ہوگیا،سپیکرنے باربارروکنے کے باوجوداپوزیشن ارکان باز نہ آئے جس پرسپیکراجلاس کی کارروائی پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کردی،تاہم اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر بھی اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی جاری رکھی توسپیکرنے اجلاس جمعرات کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا،ہنگامہ آرائی کے دوران حکومتی واپوزیشن ارکان میں تلخ جملوں کے تبادلے بھی ہوئے اور حکومتی ارکان نے بھی عمران خان چورکے نعرے لگائے،جبکہ اپوزیشن لیڈرسیدخوشیدشاہ نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت اورپارلیمنٹ قائم رہے، ہماری ضد ،نالائقیوں،غلطیوں اورجھوٹ کی وجہ سے ہمیں ریت کے گھروندے کی طرح روندکرنہ چلے جائیں،ہم پارلیمنٹ کو اس طرح تباہ نہیں کرنے دینگے،وزیراعظم کو کہناچاہیے کہ وکیل نے جوبات عدالت میں کی ہے وہ غلط ہے،قومیں توپوں اورایٹم بموں سے تباہ نہیں ہوتیں،جھوٹ سے تباہ ہوتی ہیں جبکہ سپیکر نے رولنگ دی ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس پرایوان میں کوئی بات نہیں ہوسکتی،سپیکرنے کہاکہ چیف جسٹس پورے پاکستا ن کا ہے اسکو متنازعہ نہ بنائیں۔

بدھ کوسپیکرسردارایازصادق کی زیرصدارت قومی اجلاس کااجلاس مقررہ وقت سے پینتالیس منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔قائدحزب اختلاف سیدخورشید شاہ نے پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کے وکیل کے سپریم کورٹ میں دیئے گئے بیان پرنکتہ اعتراض پربات شروع کی اور ایوا ن میں وزیراعظم نوازشریف کی کی گئی تقریر کے اقتباسات پڑھ کرسنائے تو سپیکرنے کہاکہ یہ کیس عدالت میں ہے لہٰذا اس پر بات نہ کریں ۔ خورشید شاہ نے کہاکہ وزیراعظم کی تقریر کے تین حصے تھے جن میں جدہ ،برطانیہ اور دوبئی کاذکر تھا مگر عدالت میں وزیراعظم کے ویل نے کہاکہ وزیراعظم کا بیان سیاسی تھا عدالتی نہیں تھا ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے اس پارلیمنٹ میں جو بات کی اسے عدالت میں سیاسی بیان کہا گیا کیا سیاست جھوٹ کانام ہے شیم شیم کے نعرے۔ خورشید شاہ نے کہاکہ سیاست کو جھوٹ سمجھنے والے آمریت کی سوچ رکھتے ہیں وہ ڈکٹیٹر ہوتے ہیں مگر ایک منتخب وزیراعظم رکن پارلیمنٹ کی سوچ الگ ہوتی ہے اگر وہ ایسا ہے تو اس سے بڑی زیادتی پارلیمنٹ کے ساتھ نہیں ہوسکتی اس سسٹم کو کتنی مرتبہ ڈی ریل کیا گیا اگر کوئی آمر یہ کہے تو ہمیں دکھ نہیں ہوگا ہم آمروں کے ساتھ ماضی سے لڑتے آئے ہیں جیلوں میں گئے ہیں خون دیا ہے گولیاں کھائی ہیں مگر جمہوریت کو کبھی ڈی ریل نہیں ہونے دیا کابینہ کا وزیر یا ایم این اے کوئی ایسا بیان دے تو تکلیف نہیں ہوگی مگر اس ایوان کا لیڈر جوپوری قوم کی ترجمانی کرتا ہے ان کی طرف سے یہ بات آجائے کہ ایوان کے اندر بات کرنے کی اہمیت نہیں ہے پھر ہم نے جمہوریت کیلئے قربانیاں کیوں دیں اللہ تعالیٰ جو حاکم بناتا ہے وہ عوام کاتابع ہوتا ہے مگر جو حاکم عوام کو دھوکہ دے اس پراپوزیشن ارکان نے ’’شیم شیم‘‘کے نعرے لگائے ۔خورشید شاہ نے کہاکہ سوچنے کی بات ہے کہ یہ دولت اورسلطنتیں سب تباہ ہوجائیں گی ماضی میں شہنشاہ ،بادشاہ تھے شہنشاہ ایران اورلیبیا کے بادشاہ کہاں چلے گئے سب کچھ چھوڑ کرجانا پڑتا ہے انسان چارلوگوں کے کندھے کامحتاج ہوتا ہے جو خدمت کی ہے وہی کام آئے گی یہ سن سن کر تکلیف ہورہی ہے کہ اب تو چیف جسٹس بھی اپنا آرہا ہے لوگوں میں باتیں ہورہی ہیں جس پر سپیکر نے کہاکہ عدلیہ پرکوئی بات نہ کریں خورشید شاہ نے کہاکہ لوگوں کی سوچوں میں یہ باتیں آتی جارہی ہیں سپیکر نے کہاکہ چیف جسٹس پورے پاکستان کا ہے اس کو متنازعہ نہ بنائیں ۔

خورشید شاہ نے کہاکہ چیف جسٹس آزاد ہوگا تواس پرکوئی انگلی نہیں اٹھائے گا میں عدلیہ یا کسی اور پرانگلی نہیں اٹھانا چاہتا اورنہ اٹھارہاہوں مگر کس کس کی زبان کو لگام دیں گے ہمیں مل کر مذمت کرنی چاہیے اس کو اپنی باتوں ،عمل رویے اورطریقے سے روکیں گے۔ خورشید شاہ نے کہاکہ اگر ایوان میں کوئی اوربات کریں گے اوروہاں کوئی اور بات کریں گے توباتیں ہوں گی ۔اس دوران خواجہ سعدرفیق نے کچھ کہا تو خورشید شاہ نے کہاکہ کیوں میرے چیف جسٹس کو متنازع بناتے ہو اس کامطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہوگا میں کافی عرصہ سے جانتا ہوں کہ وہ آزاد جج ہے اس کو متنازعہ نہ بنائیں۔ خورشید شاہ نے کہاکہ قومیں توپوں اورایٹم بموں سے تباہ نہیں ہوتیں جاپان پرایٹم بم گرایا گیا مگر وہ زندہ رہے جھوٹ قوموں کو تباہ کردیتا ہے جھوٹ ایک لعنت ہے چاہے خورشید شاہ بولے یا کوئی اوربولے اور وہ بھی اس مقدس ایوان کے اندر بولاجائے ۔

انہوں نے حکومتی ارکان سے کہاکہ یقیناً آپ کے پاس دلائل ہوں گے اس پر سپیکرنے کہاکہ دلائل کافیصلہ عدالت کرے گی ۔خورشید شاہ نے کہا کہ دوہزار چودہ میں میں ہی تھا جس نے کہاتھا کہ دوستوں کوواپس آنے دیاجائے آج بھی یہ میں ہی ہوں جو کہہ رہا ہوں کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا ہے اورپارلیمنٹ کے اندر سے ہوا ہے پہلے لوگ پاکستان کے پیچھے چھپتے تھے آج پاکستان کے وزیراعظم ایک خط کے پیچھے چھپتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ میری ایک ایک بات کاجواب دیاجائے گا بڑے نعرے لگیں گے ڈیسک بجائے جائیں گے لیکن ہمارا کام سچائی عوام کے سامنے رکھنا ہے فیصلہ عوام نے کرنا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت قائم رہے پارلیمنٹ قائم رہے اس کو ریت کاٹیلانہ بنائیں ہماری ضد ،نالائقیوں، غلطیوں اور جھوٹ کی وجہ سے ہمیں ریت کے گروندے کی طرح توڑ کرچلے جائیں ہم وہ لوگ ہیں جو جمہوریت کیلئے دشمنیاں بھلادیتے ہیں آپ دوبئی دوبئی بالکل ٹھیک کہتے ہیں وہ دوبئی والابندہ جب جیل میں تھا تو اس کی زبان کاٹی گئی بی بی پرزمین تنگ کی گئی مگر جب آپ پر برا وقت آیا تو پیپلزپارٹی نے آپ کاہاتھ تھاماآپ چلے گئے آصف زرداری جیل کاٹتے رہے ہمارا مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں تھا مگر ایک ڈکٹیٹر نے منتخب وزیراعظم کو برطرف کرکے جیل میں ڈالا توہم نے میاں صاحب کاساتھ دیا پیپلزپارٹی نے یہ اس لئے کیا کہ پیپلزپارٹی عوام سے کئے گئے وعدے پرقائم رہی کہ طاقت کاسرچشمہ عوام ہے۔

وزیراعظم کے وکیل نے عدالت میں کہاکہ ایوان میں دیاگیا وزیراعظم کابیان سیاسی تھا وکیل اپنے موکل کی زبان بولتا ہے وہ خود نہیں بولتاہم پارلیمنٹ کو اس طرح تباہ نہیں کرنے دیں گے وزیراعظم کو کہنا چاہیے کہ وکیل نے جو بات کی ہے وہ غلط ہے اور میری بات صحیح ہے مگردس بارہ روز گزر گئے ایسانہیں کہاگیا۔سیاست جھوٹ نہیں ہوتی ہم غریبوں کے پاس جاتے ہیں ان سے ووٹ لیتے ہیں اور وزیراعظم اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹرین بن جاتے ہیں سب سے بڑے خسارے میں پیپلز پارٹی اور میں ہوں کوئی کہتا ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن ہے مگر مجھے کوئی فکر نہیں ہے اللہ بہتر جانتا ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے میں ایک سیاسی ورکر کی طرح ہوں جس نے جیلیں کاٹیں اور کوڑوں کی سزائیں بھگتیں ۔مجھے یاد ہے 1978 میں میری ماں کی لاش پڑی ہے اور میری بیوی ہسپتال میں ہے اور میں پولیس کے ساتھ ڈسٹرکٹ جیل سکھر جا رہا ہوں میں چھ مرتبہ اس ایوان میں آیا ہوں مجھے پتہ ہے کہ یہ ایوان کیسے ٹوٹے کس طریقے سے ملک کا صدر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرتا تھا ہم نے 18 ویں ترمیم کی اس لئے نہیں کی کہ پارلیمنٹ میں عوام سے جھوٹ بولیں ۔

عوام ہماری محسن ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی تکلیفوں کے بعد اقتدار دیا ہمارے میاں صاحب سے لندن جدہ میں بات ہو تی تھی کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرینگے ایک دفعہ میاں صاحب کہہ دیں ہم سے غلطی ہوئی قوم معاف کر دے تو قوم معاف کر دیگی۔ سپیکر نے خواجہ سعد رفیق کو بات کرنے کی اجازت دی تو تحریک انصاف کے ارکان بھی کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ہمیں بھی بولنے کا موقع دیا جائے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ یہ تحریک استحقاق ہے اس کو زیر بحث لایا جائے سپیکر نے کہا کہ میں نے چیمبر میں رولنگ دی ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس پر ایوان میں بات نہیں ہو سکتی۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ 45 منٹ بات کریں اور دوسرے کا جواب نہ سنیں اس پر اپوزیشن نے نو نو کے نعرے لگائے ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پی ٹی آئی والے جمہوریت کے دشمن ہیں انہیں جمہوریت کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ۔ پی ٹی آئی کا کام صرف جھگڑا کرنا اور گند ڈالنا ہے اگر یہ ہمیں بات نہیں کرنے دیں گے تو یہ بھی بات نہیں کر سکیں گے یہ صرف تنخواہیں لینے ایوان میں آئے ہیں یہ جمہوریت کیخلاف سازش کر رہے ہیں سپیکر نے کہا کہ میں نے نکتہ اعتراض پر اجازت دی ہے تحریک استحقاق پر نہیں۔ سعد رفیق نے کہا یہ دھرنوں اور نعروں سے ہمیں ڈرا نہیں سکتے اپوزیشن ارکان نے گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے کے نعرے لگائے ۔ سعید رفیق نے کہا کہ یہ غنڈہ گردی کر رہے ہیں ان کا لیڈر بھی غنڈہ گردی کر تا ہے۔ سپیکر نے کہا کہ میں ان کو اس وقت بات کرنے دوں گا جب سعد رفیق بات کریں گے ۔

صرف اپوزیشن کا حق نکتہ اعتراض پر بات کرنے کا نہیں۔ ایوان میں ہنگامہ آرائی کے باعث کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اور اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کر سپیکر ڈائس کے سامنے آ گئے سپیکر نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اپوزیشن بات کرے اور حکومت جواب نہ دے سعد رفیق کے بعد میں اپوزیشن کو بات کرنے کا موقع دوں گا اور باری باری سب کو موقع ملے گا ۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے بھی بات کرنے کی اجازت مانگی مگر سپیکر نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کے بعد بات کرنے دوں گاشیخ رشید کو بھی بات کرنے کا موقع دونگا ۔ خواجہ سعد رفیق کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان جھوٹا جھوٹا کے نعرے لگاتے رہے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی ان کو لیڈ کر رہے ہیں یہ بدتمیزی کر رہے ہیں ۔ حکومتی ارکان نے گلی گلی میں شور ہے عمران خان چور ہے کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اس دوران سپیکر ڈائس کے سامنے موجود اپوزیشن ارکان نے نعرے بازی کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔ اس شور شرابے میں سپیکر نے اجلاس کی کارروائی 15منٹ تک کیلئے ملتوی کر دی ۔ وقفے کے دوران حکومتی وزراء اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان اجلاس کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے بات چیت ہوئی اور 15منٹ بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا اور خواجہ سعد رفیق کو سپیکر نے بات کرنے کی اجازت دی تو اپوزیشن ارکان کے دوبارہ نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی شروع کر دی جس پر سپیکر نے اجلاس جمعرات کی شام چار بجے تک ملتوی کر دیا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…