کراچی ( این این آئی ) سندھ اسمبلی کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے پیر کو سندھ اسمبلی کی گیلری میں احتجاج کیا ۔ انہوں نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے ، جن پر ’’ سکیورٹی کے نام پر تذلیل بند کرو ‘‘ اور دیگر نعرے درج تھے ۔ اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے اسپیکر کی توجہ اس معاملے پر دلائی ۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ میں سکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کروں گا ۔ اس پر اپوزیشن نے صحافیوں نے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا ۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس پیر کو شروع ہوا تو پریس گیلری میں صحافیوں نے پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کیا ۔ صحافیوں کا موقف تھا کہ سکیورٹی کے نام پر ان کی تذلیل کی جاتی ہے ۔ صحافی تھوڑی دیر احتجاج کرنے کے بعد اسمبلی ہال سے باہر چلے گئے ۔ اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ صحافی اس لیے احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کے کیمرہ مین باہر سڑک پر دھوپ میں کھڑے ہوتے ہیں ، انہیں اندر نہیں آنے دیا جاتا ۔ سکیورٹی اہل کار صحافیوں کی تذلیل کرتے ہیں حالانکہ وہ سکیورٹی میں تعاون کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی کی سکیورٹی پالیسی سے اپوزیشن کو اپنا موقف میڈیا میں پیش کرنے کا موقع ختم ہو گیا ہے کیونکہ ہمیں باہر سڑک پر جا کر اپنا موقف دینا پڑتا ہے ۔ جن لوگوں نے یہ پالیسی بنائی ہے ۔ انہوں نے اسپیکر ، سندھ اسمبلی ، میڈیا اور جمہوریت کے خلاف سازش کی ہے ۔ اسپیکر نے کہا کہ میں سکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کروں گا ۔ اپوزیشن والے اسمبلی گیٹ پر بیٹھ جائیں اور سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔ سکیورٹی کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کسی کو میڈیا سے بات کرنا ہے تو وہ پریس کلب چلا جائے ۔ اس دوران مسلم لیگ (فنکشنل) کے پارلیمانی لیڈر نند کمار بات کرنا چاہتے تھے لیکن وہ بات نہ کر سکے اور ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے ۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر محمد اسماعیل راہو نے کہا کہ اطلاعات تک رسائی بنیادی حق ہے ۔ ایک صحافی کا اسٹنگ آپریشن 29 اپریل کو ہوا تھا لیکن سکیورٹی انتظامات 14 جون کو کیے گئے ۔ اسپیکر نے کہاکہ اسمبلی کے لیے سکیورٹی رسک تھا ۔ بہت بڑی سازش ہو رہی تھی ، جسے میں نے روکا ۔ قومی اسمبلی ، پنجاب ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلیوں میں بھی کیمرے لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ میں کسی کی ڈکٹیشن نہیں لینا اور میں نے کسی سے زیادتی بھی نہیں کی ہے ۔ سب کو بولنے کی اجازت دیتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کی ایک ایک چیز رپورٹ ہوتی تھی اور پورے ایوان کو واچ کیا جاتا تھا ۔ جیمز بانڈ کے بیٹے کے آنے کے بعد سکیورٹی اقدامات کیے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کیمرے اندر لانے پر عارضی پابندی کی ہے ۔ اگر لوگ چاہتے ہیں تو اسے مستقل کر دوں گا ۔ کیمرہ مینوں کو جو سہولتیں دو سکتا تھا ، دے رہا ہوں ۔ میں کسی دباؤ میں نہیں آؤں گا ۔ اپوزیشن لیڈر کچھ بات کرنا چاہتے تھے لیکن اسپیکر نے ان سے کہا کہ آپ اپنے الفاظ میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش کریں ۔ میں اپنے اللہ کے سوال کسی کی ایڈوائس نہیں لیتا ۔ اگر میں آپ کی بات مانوں تو جمہوریت ہے ، ورنہ نہیں ۔ اس پر اپوزیشن ارکان دن کے 12بجکر 18 منٹ پر احتجاجاً ایوان سے باہر چلے گئے ۔ وہ 12 بجکر 44 منٹ پر واپس آ گئے ۔ صحافیوں نے اسمبلی بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بھی احتجاج کیا ۔ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان نے بھی اس احتجاج میں شرکت کی اور صحافیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ۔