کراچی(نیوز ڈیسک)آئندہ ماہ جب پیپلزپارٹی اپنا 48واں یوم تاسیس منارہی ہوگی، 2013کے انتخابات میں جس طرح اس کی کارکردگی رہی تو اس موقع پر اب اس کے پاس قابل مسرت عوامل کم ہی ہیں۔ پارٹی نے زوال کی وجوہ جاننے کیلئے ایک کمیٹی قائم کردی ہے ،جس کیلئے 3بڑے عوامل کا جائزہ لیے بغیر یہ کام کرنا انتہائی مشکل ہے ، یہ وہ عوامل ہیں جو اس کے زوال کا باعث بنے۔ جنگ رپورٹر مظہر عباس کے مطابق بینظیر بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی اپنی سمت اور فلسفہ کھو بیٹھی اور اس کے سیاسی روئیے میں تبدیلی سے یہ عملی طور پر پیپلزپارٹی سے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ، اس لیے اسے سابقہ سطح پر بحال کرنے کیلئے اس میں بڑی پیمانے پر تبدیلیوںکی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کی طاقت ہمیشہ ہی کسان طبقہ، ٹریڈ یونینز، طلباء،اقلیتیں اورسول سوسائٹی رہی۔ معاشرے کےیہ تمام طبقے پیپلزپارٹی سے آج ناراض اور مایوس ہیں ،ماضی میں آزمائے جانے پر یہ عوام کا اعتماد کھوچکی ہے اور اس کی بحالی اس کیلئے ایک بڑا کام ہے۔ 1) قیادت کا بحران۔مرحوم ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے ولولہ انگیز رہنماوں میں شامل تھے جنہوں لوگوں کے ذہنوں پر اپنی پھانسی کے باوجود 4دہائیوں تک راج کیا۔ پیپلزپارٹی نے 3 الیکشن بھٹو کے محرک کی بنیاد پر جیتے۔ انہیں خوفناک مثال بنادیا گیا لیکن ان کی مقبولیت کا گراف ان کی موت کے بعد بھی برقراررہا ہے۔ بھٹو نے بینظیر کی صلاحیتوں کو نکھارا لیکن اس بات پر انہیں سراہا جانا چاہیےکہ وہ اپنے جدوجہد کی بنیادپر قومی رہنما بنیں،لیکن کسی نہ کسی طرح بی بی اپنی سمت کھوبیٹھیں اورپارٹی مضبوط کرنے کے موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔ عوام کی بھرپور حمایت کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر انہیں 1988میں اقتدار ملا۔اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کبھی قبول نہیں کیا اور دو مرتبہ انہیں مہران بینک اسکینڈل جیسی سازشوں کے باعث اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بالاآخر وہ این آر او کے جال میں پھنس کر اپنی جان کو لاحق سنگین ترین خطرات کے باوجود وطن واپس آگئیں۔ جب 27دسمبر کو انہیں قتل کرکے طبعی طور پر راستے سے ہٹادیا گیا تو ہماری سیاہ سیاسی تاریخ کا زندگی سے بھرپور ترین باب بند ہوگیا۔ جب ان کی موت ہوئی تو وہ اپنے والد کی طرح شہرت کی بلندیوں پر تھیں۔ ان کے قتل سے پیپلزپارٹی کی ولولہ انگیز رہنما کادور اختتام پذیر ہوا، اور کسی تجربہ کار بھٹو کی غیرموجودگی میں ، ہم نے قیادت ایک متنازع وصیت کے ذریعے بھٹو سےاآصف زرداری کی طرف منتقل ہوتی دیکھی۔ اگر پارٹی کی جانب سے اس کے سینئر وائس چیئرمین مخدوم امین فہیم کوبلاول بھٹو یا بینظیر کی دونوں بیٹیوں کے جوان ہونے تک انہیں پارٹی کا قائم مقام چیئرمین بنادیا جاتو اس سے پیپلزپارٹی کی سیاست میں ایک دور شروع ہوتا جوکہ اسے مزید جمہوری پارٹی بناتا۔2) آصف زرداری تحرک کی موجودگی۔آصف زرداری خاندان کا ہمیشہ سے ہی بھٹوخاندان کے ساتھ محب اور نفرت کا تعلق رہا۔ مرحوم حاکم علی زرداری ایک وقت میں بھٹو کے قریب تھے بعدمیںانہوں نے کالعدم نیشنلعوامی پارٹی (نیپ) میں شمولیت اختیار کرلی ، ان کے بیٹے اپنے آصف علی زرداری اپنے کالج کےدنوں میں سیاست میں متحرک تھے اور نہ ہی انہیں سیاست میں دلچسپی تھی۔ اس لیے جب بینظیر بھٹو نے ان سے شادی کا فیصلہ کیا تو کئی ایک کو حیرت ہوئی، جس میں ان کے قریبی دوست بھی شامل تھے۔ انہوں نے 1987میں شادی کی۔ کئی ایک کا خیال تھاکہ وہ سیاست میں متحرک نہیں ہونگے لیکن انہوںنے بتدریج چند ماہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ا?نے کے بعد سیاست میں شمولیت اختیار کی، اس کے بعد میڈیا میں کرپشن کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ اس عرصے کے دوران ان کے کالج کے زمانے کے کچھ دوستوں خصوصاً جاوید پاشا، ڈاکٹر عاصم، ذوالفقار مرزا کو اہم عہدے ملنا شروع ہوگئے۔ صرف ذوالفقار مرزا کے علاوہ بمشکل ہی کسی اور کا ان میں سے سیاسی پس منظر تھا۔ یہ پیپلزپارٹی کے کمرشلائز ہونے اور پارٹی کا سیاسی رویہ تبدیل ہونے کی ابتداءتھی۔ اس سب کی وجہ سے بی بی اور ان کی حکومت کا تشخص خراب ہوا، اور وہ مکمل طور پر لاچار نظر آئیں۔آصف زرداری نے کئی سال جیل میں گزارے اور بدعنوانی سےلے کر قتل تک کے الزامات کا سامنا کیا۔وہ اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کو یقینی بنانے میں بھی کامیاب ہوئےلیکن اپنا تشخص بہتر کرنے میں ناکام رہے ، جس کے باعث پیپلزپارٹی کو 2013میں بدترین شکست ہوئی۔ ان کے مسٹر ٹین پرسینٹ یا مسٹر سینٹ پرسینٹ کے تشخص نے پارٹی کے تشخص کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا۔ وکلاءتحریک اور افتخار چوہدری کی حمایت کے بارے میں بینظیر بھٹو کے خیالات مختلف تھے۔ انتخابات کے جلد انعقاد کیلئے انہوںنے این آر او کیلئے ایک اہم کردار ادا کیا اور بی بی کو مشرف کے ساتھ مفاہمت کرنے کیلئے بھی ان پر اثر انداز ہوئے۔ بی بی کے قتل کے بعد آصف زرداری کو پارٹی پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا لیکن اگر انہوںنےنواز شریف کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کے تحت ججو ں کو بحالی اور شراکت اقتدار کیا ہوتا ، تو اس سے ناصرف پیپلزپارٹی کو تقویت ملتی بلکہ آصف زرداری کا تشخص بھی بہتر ہوجاتا۔ پیپلزپارٹی میں کچھ لوگوں کا دعویٰ ہےکہ بینظیر بھٹو کے منظر سے ہٹنے کے بعد انہوں نے پارٹی کو ٹوٹنے سے بچایا ، انہوں نےکہاکہ پارٹی کا اب تک یکجا رہنا آصف زرداری کی حکمت عملی کے ہی مرہون منت ہے۔ انہوں یہ بھی کہاکہ 18ویں ترمیم کے تحت آصف زرداری نے اپنے اختیارات ترک کرکےقربانی بھی دی، اس طرح انہوں نے وفاق کو مضبوط بنایا اور صوبائی خودمختاری کیلئے راہ ہموار کی ، یہ آصف زرداری کا تاریخی فیصلہ تھا جس سے ملک اور جمہوریت مستحکم ہوئی۔ پانچ سالہ مدت اقتدار مکمل کرکےاآصف زرداری نے اچھی مثال قائم کی اور غیر جمہوری طاقتوں کو شکست دی۔ انہوں نے دوسروں کو بھی یہ سکھایا کہ سیاست کیسے کرنی ہے۔ جب حکومت گرانے کی کوششیں ہورہی تھیں تو آصف زرداری نے جمہوری حکومت کا ساتھ دے کر نوازحکومت کو یقینی تباہی سے بچایا۔ ملک میں جمہوریت کیلئے یہ آصف زرداری کا بہت بڑا حصہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ جہاں تک بدعنوانی کے الزامات کا تعلق ہے تو ملک میںکئی لوگوں سمیت خصوصاً آصف زرداری کو بھی کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے، انہوں نے کہاکہ اگر آصف زرداری نے کرپشن کی ہوتی تو وہ مشرف دور میں عدالتوں کے ذریعے ثابت ہوجاتی۔ آصف زرداری محض بے بنیاد پراپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہےکہ پیپلزپارٹی کا زوال عارضی ہے اور ایسے عروج و زوال سیاست کا حصہ ہوتے ہیں۔ آصف زرداری کا متبادل کیا ہے؟ بلاول بھٹو، اپنی ماں کی طرح انہیں پارٹی نہ ملنے پر افسوس ہی کیاجاسکتا ہے ، دوئم جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے بی بی کی تربیت کی ،ان کی تربیت اس سے بہت مختلف ہے۔ اس لیے اگر بلاول کوئی موقع حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں خود کو ثابت کرتے ہوئے اگر اپنے نانا کے ناسہی اپنی والدہ کے تشخص کے قریب آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں اپنے تئیں جدوجہد کرنی چاہیے اورپارٹی میں اعلیٰ ترین سطح سے بدعنوانی کے خلاف صفائی کیلئے کارروائی کرنی چاہیے۔ اب تین مرتبہ انہیں سیاسی طور پر متعارف کرانے کی کوششیں رائیگاں گئیں اور انکے سیاسی مخالفین آصف زرداری کی موجودگی میں انہیں محض کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔ 3) بدترطرز انتظامیہ اور بدعنوانی۔طرز انتظامیہ کے حوالےسے پیپلزپارٹی کاریکارڈ بدترین ہے لیکن بدعنوانی کے لیبل نے پارٹی کے تشخص کو تباد کردیا ، اس نے اپنا سیاسی رویہ بدل لیا اور جب بھی اسے موقع ملا، یہ بڑے پیمانے پر وہ اصلاحات نہ کرسکی جس سے اس کی جڑیں مضبوط ہوتیں۔ اس لیے یہ بدقسمتی ہےکہ اپنے 5سالہ دور کے دوران پیپلزپارٹی بہتر طرز انتظامیہ کی مثا ل قائم نہیںکرسکی۔ اس کے برخلاف گزشتہ چند سالوں میں اسکے بدعنوان ترین حکومت ہونے کے خیال کو تقویت ملی ، صرف ا?صف زرداری کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر اعلیٰ رہنماوں کو بھی تنقید کا سامنا رہا۔ زرداری نے اپنی حکومت کے دو سال نواز شریف اور افتخار چوہدری کے ساتھ محاذا?رائی میں ضائع کردئیے ، اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اس مقبول جذبے سے ہاتھ دھو بیٹھی جوکہ اس وقت سابق چیف جسٹس کے ساتھ تھا۔ یادرہے کہ عمران خان کا عروج بھی وکلاءتحریک کے دوران ہوا ، اس لیے برے فیصلوں کے باعث حکومت اپنے آخر کے دوسالوں میں افرتفری کا شکار رہی اور آخر میں پیپلزپارٹی نے ججوں کو بحال کردیا ، لیکن اس سے قبل اس نے پنجاب میں گورنر راج بھی لگایا، جوکہ پھر ضرررساں ثابت ہوا۔ لہٰذا حکومت پر کنٹرول ہونے کے باوجود اور صدر مملکت، وزیر اعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی کارکردگی نہ دکھاسکی۔ ایک جانب تو ن لیگ نے حکومت پر دباو ڈالا ، اورآصف زرداری کی جانب سے ججوں کو بحال کیے جانے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کو کرپشن کے بدترین الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ درست ہےکہ اگر طالبان کا عنصر نہ ہوتا تو پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا میں کچھ نشستیں ضرور جیت جاتی لیکن پارٹی نے تقریباً ہتھیار ہی ڈال دیئے، دوئم ، اگر اس نے واقعی کارکردگی دکھائی ہوتی اور کچھ اچھی مثالیں قائم کی ہوتیں تو نتائج بہت مختلف ہوتے۔ یہاں تک کہ گزشتہ ڈھائی سالوں میں پیپلزپاٹی اس طرح سندھ میں اچھی طرز انتظامیہ کا مظاہرہ کرسکتی تھی جس کا مظاہرہ شہباز شریف نے پنجاب میں اور پرویز خٹک نے خیبرپختونخوا میں کیا تھا، باوجود اس کے ان کی پالیسیوں پر بے تحاشہ تنقید کی گئی۔ کیا بہتری کا کوئی راستہ ہے؟وجودہ حالات میں جبکہ تیسری جماعت پی ٹی آئی کا آپشن موجود ہے، جس کے پاس عمران خان کی صورت میں ولولہ انگیز قیادت موجود ہے، پیپلزپارٹی کیلئے یہ آسان نہ ہوگا۔ لیکن پھر بھی بھٹو کی بصارت کی بنیاد پر اور آج کے زمینی حقائق کے تحت وہ نیا سیاسی فلسفہ پیش کرسکتی ہے۔ پارٹی خود کو وارڈ کی سطح سے ضلعی اور ضلعی سطح سے لے کر ڈویڑن کی سطح تک دوبارہ منظم کرسکتی ہے ، اور انہیں ماضی کے برخلاف اب اہمیت دی جانی چاہیے۔ پارٹی بدعنوان رہنماوں سے چھٹکارا حاصل کرے ، یہ فیصلہ مشکل ضرور ہے لیکن پارٹی کی بحالی کیلئے لیا جانا ضروری ہے۔ پارٹی سے مخلص کارکنان کو دوبارہ پارٹی کی صفوں میں شامل کرنا پیپلزپارٹی کیلئے ایک بڑا کام ہے۔زرداری عنصرایسا نہیں کرسکتا لیکن بھٹو عنصر کی مددسے اس میں کامیابی ہوسکتی ہے، بشرط یہ کہ پارٹی کوئی منصوبہ یا پروگرام لے کرآئے۔ پارٹی کی صوبائی سطح پر مرکزی مجالس عاملہ(سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی) کو ختم کیا جائے اور پارٹی کو اپنے آپ کو جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر آصف زرداری اپنا عہدہ چھوڑدیں تو وہ بلاول کیلئے راہ ہموار کرسکتےہیں۔ پیپلزپارٹی ترقی پسندانہ پروگرا م کے ساتھ نئے تشخص کی حامل بن جائیگی اور پھر وہ ن لیگ اور پی ٹی ا?ئی کوچیلنج کرسکتی ہے ، لیکن آئندہ عام انتخابات سے قبل آئندہ دوسالوں میں انہیں سندھ میں اچھی طرز انتظامیہ کے ضمن میں انقلاب آفرین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ اس زمرے میں پیپلزپارٹی کے پاس کارکردگی دکھانے کی گنجائش ہے۔ تاریخ ذوالفقار علی بھٹوکو ہمیشہ پاکستان کے ولولہ انگیز ترین رہنما کے طور پر یادرکھے گی اور ڈاکٹر عبدالقدیر کے الفاظ میں حقیقی قوم پرست۔ انہوں کبھی خواب میں بھی یہ نہیں ہوچا ہوگاکہ انکی پارٹی قیادت انکی پارٹی کو زوال پذیر کرے گی۔